اب چونکہ آپ نے یہ سوال پیدا کیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس مسئلہ کے متعلق جو برطانوی اور مسلم دونوں کے زاویہ نگاہ سے بہت اہم ہے۔ چند معروضات پیش کروں۔ آپ چاہتے ہیں کہ میں واضح کروں کہ حکومت جب کسی جماعت کے مذہبی اختلافات کو تسلیم کرتی ہے تو میں اسے کس حد تک گوارا کر سکتا ہوں۔ سو عرض ہے کہ:
اوّلاً… اسلام لازماً ایک دینی جماعت ہے۔ جس کے حدود مقرر ہیں۔ یعنی وحدت الوہیت پر ایمان، انبیاء پر ایمان اور رسول کریمﷺ کی ختم رسالت پر ایمان۔ دراصل یہ آخری یقین ہی وہ حقیقت ہے جو مسلم اور غیرمسلم کے درمیان وجہ امتیاز ہے اور اس امر کے لئے فیصلہ کن ہے کہ کوئی فرد یا گروہ ملت اسلامیہ میں شامل ہے یا نہیں۔ مثلاً برہمو خدا پر یقین رکھتے ہیں اور رسول کریمﷺ کو خدا کا پیغمبر مانتے ہیں۔ لیکن انہیں ملت اسلامیہ میں شمار نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ قادیانیوں کی طرح وہ انبیاء کے ذریعہ وحی کے تسلسل پر ایمان رکھتے ہیں اور رسول کریمﷺ کی ختم نبوت کو نہیں مانتے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے۔ کوئی اسلامی فرقہ اس حد فاصل کو عبور کرنے کی جسارت نہیں کر سکا۔
ایران میں بہائیوں نے ختم نبوت کے اصول کو صریحاً جھٹلایا۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی تسلیم کر لیا کہ وہ الگ جماعت ہیں اور مسلمانوں میں شامل نہیں ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ اسلام بحیثیت دین کے خدا کی طرف سے ظاہر ہوا۔ لیکن اسلام بحیثیت سوسائٹی یا ملت کے رسول کریمﷺ کی شخصیت کا مرہون منت ہے۔
میری رائے میں قادیانیوں کے سامنے صرف دو راہیں ہیں۔ یا وہ بہائیوں کی تقلید کریں یا پھر ختم نبوت کی تاویلیوں کو چھوڑ کر اس اصول کو اس کے پورے مفہوم کے ساتھ قبول کر لیں۔ ان کی جدید تاویلیں محض اس غرض سے ہیں کہ ان کا شمار حلقہ اسلام میں ہو تاکہ انہیں سیاسی فوائد پہنچ جائیں۔
ثانیاً… ہمیں قادیانیوں کی حکمت عملی اور دنیائے اسلام سے متعلق ان کے رویہ کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ بانی تحریک نے ملت اسلامیہ کو سٹرے ہوئے دودھ سے تشبیہ دی تھی اور اپنی جماعت کو تازہ دودھ سے اور اپنے مقلدین کو ملت اسلامیہ سے میل جول رکھنے سے اجتناب کا حکم دیا تھا۔ علاوہ بریں ان کا دین کے بنیادی اصولوں سے انکار۔ اپنی جماعت کا نیا نام (احمدی) مسلمانوں کی قیام نماز سے قطع تعلق، نکاح وغیرہ کے معاملات میں مسلمانوں سے بائیکاٹ اور ان سب سے بڑھ کر یہ اعلان کہ تمام دنیائے اسلام کافر ہے۔ یہ تمام امور قادیانیوں کی علیحدگی پر دال