’’میرے نزدیک بہائیت قادیانیت سے کہیں زیادہ مخلص ہے۔ کیونکہ وہ کھلے طور پر اسلام سے باغی ہے۔ لیکن مؤخر الذکر اسلام کی چند نہایت اہم صورتوں کو ظاہری طور پر قائم رکھتی ہے۔ لیکن باطنی طور پر اسلام کی روح اور مقاصد کے لئے مہلک ہے۔‘‘
’’مسلمانوں نے قادیانی تحریک کے خلاف جس شدت احساس کا ثبوت دیا ہے۔ وہ جدید اجتماعیات کے طالب علم کے لئے بالکل واضح ہے۔ عام مسلمان جسے پچھلے دنوں ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ میں ایک صاحب نے ملازدہ کا خطاب دیا تھا۔ اس تحریک کے مقابلہ میں حفظ نفس کا ثبوت دے رہا ہے۔‘‘
’’نام نہاد تعلیم یافتہ مسلمانوں نے ختم نبوت کے تمدنی پہلو پر کبھی غور نہیں کیا اور مغربیت کی ہوا نے اسے حفظ نفس کے جذبہ سے بھی عاری کر دیا ہے۔ بعض ایسے ہی مسلمانوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کو رواداری کا مشورہ دیا ہے۔‘‘
حکومت کو موجودہ صورتحال پر غور کرنا چاہئے اور اس اہم معاملہ میں جو قومی وحدت کے لئے اشد اہم ہے۔ عام مسلمانوں کی ذہنیت کا اندازہ لگانا چاہئے۔ اگر کسی قوم کی وحدت خطرے میں ہو تو اس کے سوا چارہ کار نہیں رہتا کہ وہ معاندانہ قوتوں کے خلاف اپنی مدافعت کرے۔ کیا یہ مناسب ہے کہ اصل جماعت کو رواداری کی تلقین کی جائے۔ حالانکہ اس کی وحدت خطرے میں ہو اور باغی گروہ کو تبلیغ کی پوری اجازت ہو۔ اگرچہ وہ تبلیغ جھوٹ اور دشنام سے لبریز ہو۔ اس مقام پر یہ دہرانے کی غالباً ضرورت نہیں کہ مسلمانوں کے بیشمار مذہبی فرقوں کے مذہبی تنازعوں کا ان بنیادی مسائل پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔ جن مسائل پر سب فرقے متفق ہیں۔ اگرچہ وہ ایک دوسرے پر الحاد کا فتویٰ ہی دیتے ہیں۔ (حرف اقبال ص۱۲۱ تا ۱۲۷)
قادیانیوں کی تفریق کی پالیسی کے پیش نظر جو انہوں نے مذہبی اور معاشرتی معاشرت میں ایک نئی نبوت کا اعلان کر کے اختیار کی ہے۔ خود حکومت کا فرض ہے کہ وہ قادیانیوں اور مسلمانوں کے بنیادی اختلافات کا لحاظ رکھتے ہوئے آئینی قدم اٹھائے اور اس کا انتظار نہ کرے کہ مسلمان کب مطالبہ کرتے ہیں اور مجھے اس احساس میں حکومت کے سکھوں کے متعلق رویہ سے بھی تقویت ملی۔ سکھ ۱۹۱۹ء تک آئینی طور پر علیحدہ سیاسی جماعت تصور نہیں کئے جاتے تھے۔ لیکن اس کے بعد ایک علیحدہ جماعت تسلیم کر لئے گئے۔ حالانکہ انہوں نے کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا۔ بلکہ لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ کیا تھا کہ سکھ ہندو ہیں۔