۵… بعض احادیث میں یہ الفاظ ہیں۔ ’’انی اٰخر الانبیاء وان مسجدی اٰخر المساجد (مسلم ج۱ ص۴۴۶)‘‘ {میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے۔} یعنی نبیوں کی مسجدوں سے۔
اسی کے قریب نسائی وغیرہ میں الفاظ آئے ہیں اور کنزالعمال میں بحوالہ دیلمی وغیرہ ’’خاتم مساجد الانبیائ‘‘ کے الفاظ ہیں۔ یعنی میری مسجد نبیوں کی آخری مسجد ہے۔
اس حدیث سے معاملہ بالکل صاف ہوگیا کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں بن سکتا۔
۶… پھر مہر کے معنی لے کر مرزائیوں نے جو مراد لی ہے وہ عام دستور کے بھی خلاف ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ تصدیق کے لئے مہر مضمون وغیرہ کے بعد لگائی جاتی ہے۔ اگر کسی کو کہا جائے کہ پہلے مہر لگادے یا دستخط پہلے کر دے۔ تو فوراً اس کے دل میں ۴۲۰ کا خطرہ دوڑ جاتا ہے۔ ہاں فیس کی مہر پہلے ہوتی ہے۔ جیسے اسٹاسپ وغیرہ۔ مگر یہاں فیس سے کوئی تعلق نہیں۔
اس بناء پر خاتم النبیین میں نبیوں سے مراد نئے نبی نہیں ہوسکتے۔ بلکہ گذشتہ نبی مراد ہوںگے۔ کیونکہ نئے نبیوں کا تو اس وقت وجود ہی نہیں تھا تو ان کے لحاظ سے آپؐ کو خاتم نہیں کہا جاسکتا۔
پاکٹ بک مرزائیہ (مرتبہ عبدالرحمن خادم گجراتی) میں خاتم النبیین کے معنی نبیوں کی زینت کے بھی کئے ہیں اور مرزامحمود نے تحقیقاتی عدالت میں جو بیان دیا ہے۔ اس کی قسط مندرجہ اخبار مورخہ ۱۸؍جنوری ۱۹۵۴ء میں بھی یہی معنی کئے ہیں۔ لیکن کسی معتبر لغت عرب سے اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا اور بعض نے مجمع البحرین کا حوالہ دیا ہے۔ حالانکہ وہ معتبر نہیں اور پاکٹ بک مرزائیہ میں مجموعہ بنہانی جز ۴ کے حوالہ سے ابن معتوق شاعر کا یہ شعر پیش کیا ہے ؎
طوق الرسالۃ تاج الرسل خاتمہم
بل زینۃ لعباد اﷲ کلہم اس شعر کے مصرعہ دوم میں لفظ بل اور اس کے بعد لفظ زینۃ سے مرزائیوں نے یہ دھوکا کھایا ہے کہ پہلے مصرعہ میں طوق، تاج اور خاتم تینوں الفاظ کے معنی زینت کے ہیں۔
حالانکہ یہ کئی وجوہ سے غلط ہے۔
اوّل… ابن معتوق کا عربی ہونا ثابت نہیں اور عجمی کا کلام لغت عرب میں حجت نہیں۔