اوّل… یہ کہ نبی براہ راست اﷲتعالیٰ سے پیغام حاصل کرتا ہے اور جب نبی جدا ہوتو جڑ سے ہی جدائی اور تفریق ہوگئی۔ ایسا اختلاف قوم کو مستقل دوامتیں بنا دیتا ہے اور نبی ایک ہونے کی صورت میں دونوں کا رجوع اسی نبی کی طرف ہوگا۔ پس وہ دو مستقل امتیں نہ ہوں گی۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ جب نبی جدا ہو اور اس کو جھٹلایا جائے تو یہ گویا نبی پر کفر کا فتویٰ ہے اور نبی ایک ہونے کی صورت میں اگر ایک دوسرے پر کفر کا فتویٰ ہو تو یہ امتی کا امتی پر فتویٰ ہے اور ان دونوں میں جو فرق ہے وہ ظاہر ہے۔
افسوس ہے کہ اس مسئلہ پر کما حقہ غور نہیں کیاگیا۔ اصل بات یہ ہے کہ مرزائیت کو اقلیت قرار دینے کے مطالبہ کا مدار صرف کفر واسلام کی بحث پر نہیں بلکہ یہ نبوت کی تبدیلی کا لازمی نتیجہ ہے۔ اس مطالبہ کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ امتیں ہمیشہ نبوت کے تابع ہوتی ہیں۔ نبوت کے بدل جانے سے امت بھی علیحدہ ہو جاتی ہے۔ یہودی عیسائی مسلمانوں سے اس لئے علیحدہ ہیں کہ ان میں اور مسلمانوں میں نبوت کی تفریق ہے۔
دوسری جماعتوں کا آپس میں سلسلہ تکفیر خواہ کسی حد تک بھی کیوں نہ پہنچ جائے۔ مرکز نبوت سب کا ایک ہے۔ تمام فرقے صدہا اختلافات کے باوجود نبوت محمدیہ پر متفق اور متحد ہیں اور عقیدہ ختم نبوت پر اس کا اجماع ہے۔ مرزائیوں نے چونکہ اپنی نبوت علیحدہ کر لی ہے اور اسی نبوت کی وجہ سے انہوں نے مسلمانوں سے کلی مقاطعہ کیا ہے۔ اس بناء پر مسلمانوں کا مطالبہ ہے کہ مرزائیوں کو یہودیوں، عیسائیوں کی طرح علیحدہ اقلیت قرار دیا جائے۔
مختصر یہ کہ مرزائیوں کی تکفیر کو دوسری جماعتوں کے اختلاف پر قیاس کرنا غلط ہے۔ مرزائی مسلمانوں سے اپنی نئی نبوت کی وجہ سے علیحدہ ہیں۔ چنانچہ مذکورہ بالا عبارات مرزائیہ کو پھر پڑھ جائیے۔ مرزائی خود اعلان کرتے ہیں کہ مسلمان اور مرزائی کی تفریق بالکل اسی طرح کی ہے۔ جیسی مسلمانوں اور عیسائیوں ویہودی کی تفریق ہے۔
اور اصولی لحاظ سے مرزائیوں کا یہ اعلان صحیح ہے۔ ان کا حق ہے کہ وہ ہر امر میں مسلمانوں سے علیحدہ رہیں۔ کیونکہ ان کی نبوت علیحدہ ہے۔ اندریں صورت کیا وجہ ہے کہ عیسائی وغیرہ تو اقلیت میں ہوں اور مرزائیوں کو مسلمانوں میں شامل کیا جائے۔