۱… ’’حضرت مسیح موعود نے تو فرمایا ہے کہ ان (مسلمانوں) کا اسلام اور ہے اور ہمارا اور۔ ان کا خدا اور ہے اور ہمارا اور۔ ہمارا حج اور ہے۔ ان کا حج اور ہے۔ اسی طرح ہر بات میں اختلاف ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲۱؍اگست ۱۹۱۷ئ)
۲… ’’یہ غلط ہے کہ دوسرے لوگوں سے ہمارا اختلاف صرف وفات مسیح یا اور چند مسائل میں ہے۔ مسیح موعود نے فرمایا۔ اﷲتعالیٰ کی ذات، رسول کریمﷺ، قرآن، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ غرض آپ نے تفصیل سے بتایا کہ ایک ایک چیز میں ان سے ہمیں اختلاف ہے۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۳۰؍جولائی ۱۹۳۱ئ)
اس ہمہ گیر اختلاف کا نتیجہ یہ ہوا کہ مرزائیوں نے مسلمانوں کا پورا مقاطعہ کر دیا اور ایک نئی امت کی حیثیت سے اپنے مذہبی، معاشرتی اور سیاسی تمام تعلقات الگ کر لئے۔ اسی سکیم کا نتیجہ تھا کہ ظفر اﷲ خاں نے بانی ٔ پاکستان مسٹر محمد علی جناح کا جنازہ نہ پڑھا۔ اس پر سوال ہوا تو کہا۔ میرے نزدیک وہ کافر ہے۔ چنانچہ ان دنوں اخبارات ’’زمیندار‘‘ وغیرہ میں اس کا بہت تذکرہ ہوچکا ہے۔
غور فرمائیے! ظفر اﷲ کے بانی ٔ پاکستان کے ساتھ کتنے گہرے تعلقات تھے اور یہ ان کے کئی طرح ممنون تھے۔ وزارت خارجہ کا عہدہ بھی انہی کا عنایت کردہ ہے۔ مگر مرزائیت کی سکیم مقاطعہ نے تمام روابط توڑ دئیے۔ سب احسانات فراموش کر دئیے اور پاکستان کے آٹھ کروڑ مسلمانوں کی نمائندگی کا حق ظفر اﷲ نے یوں ادا کیا کہ پاکستان کو کفرستان بنا دیا۔ لیکن ہمارا ارباب اقتدار کا حال دیکھئے کہ یہ حضرات پھر بھی ان لوگوں کے اسلام ہی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
کچھ اور بھی
سنئے! مرزابشیر الدین مقاطعہ کی سکیم کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
۱…مسلمانوں کے پیچھے نماز نہ پڑھو
’’حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے سختی سے تاکید فرمائی ہے کہ کسی احمدی کو غیراحمدی کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔ باہر سے لوگ اس کے متعلق بار بار پوچھتے ہیں۔ میں کہتا ہوں تم جتنی دفعہ بھی پوچھو گے۔ اتنی ہی دفعہ میں یہ جواب دوں گا کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز جائز نہیں، جائز نہیں، جائز نہیں۔‘‘ (انوار خلافت ص۸۹)