نقاب اوڑھے رکھتی ہے اور یوں دل کی کدورت چھپی رہتی ہے۔ اعلیٰ طبقے کے ظاہری اطوار بہت بلند ہونے چاہئیں۔ تاکہ عوام ان کے شکار رہیں۔ مکاری اعلیٰ طبقے کا خاص فن ہے۔ جس کے بغیر حاکم خاندان عموماً برباد ہوتے ہیں اور ان کو انقلاب کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ غریب اور انقلابی جماعتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اعلیٰ طبقہ کے ممبروں کو دیرتک زیر تربیت رکھنے کے بعد انہیں ذمہ داری کے کام پر لگائیں۔ ذہنیت بدلے بغیر ان سے ہر وقت خدشہ رہتا ہے کہ وہ پھر کان نمک میں نمک ہو جائیں گے۔ ہم نے یہی غلطی کھائی کہ سمجھا کہ امراء غریب طبقے کے لیڈروں کی رہنمائی قبول کر لیں گے۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ انہوں نے اپنی طبیعت کے تقاضوں کے مطابق ہم جنس امراء کا ساتھ دینا شروع کیا۔ جو ایک آدھ غریب ممبر تھا وہ بلند درجہ پر پہنچ کر احرار کو اونچے طبقے کی طرح ذلت کی نگاہوں سے دیکھنے لگا اور پھر ڈر یہ بھی تھا کہ سر سکندر حکومت انگریزی کا پروردہ ہے۔ انگریز ہر حال میں اس کی پشتی بانی کرتا ہے۔ وہ احرار سی باغی جماعت سے وابستہ ہوکر خطرات کیوں برداشت کریں۔ غرض آئندہ کے لئے ایک سبق حاصل کرنا چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے جماعت سے باہر کے لوگوں پر اعتماد نہ کیا جائے۔ اگر احرار کو غریبوں کی نمائندہ جماعت کا لقب قائم رکھنا ہے تو اعلیٰ طبقے سے امید وفاداری فضول ہے اور ناتربیت یافتہ غریب بھی اونچی کرسی پر بیٹھ کر غریبوں کے حال کو بھول جاتے ہیں۔ پس احرار کو کسی حال میں یہ نہ بھولنا چاہئے کہ غریب انقلابی جماعتوں کو اپنے ممبروں کی ذہنی تربیت پر اعتماد کے سوا چارہ نہیں۔ اسی پر زور دینا راہ نجات ہے۔
لدھیانہ، جالندھر، لائل پور کے میونسپل انتخابات میں ہمیں پوری کامیابی ہوئی۔ مگر بعد میں ممبر احرار سے وفادار نہ رہے۔ انہوں نے کانگریس اور لیگ کی طرف جھکنا پسند کیا۔ اس لئے کہ احرار پارٹی میں سرمایہ دار لوگ نہیں۔ عام طبیعتیں مشکل پسند نہیں۔ کبھی کبھی جیل ہو آنا بھی معمولی بات ہے۔ عام احرار کی روزانہ زندگی جیل کی زندگی سے کم تکلیف دہ نہیں۔ بس ایسی تکلیف دہ زندگیاں بسر کرنا یا ان سے وابستہ ہونا کچھ آسان کام نہیں۔ سرمایہ دارانہ ذہن رکھنے والے لوگ اسی لئے کانگریس میں رہ کر آسودہ ہیں کہ کانگریس کا عام ذہن سرمایہ دارانہ ہے۔ غرض احرار کی شکست کے بعد جس کی عام ذمہ داری شہید گنج گرانے کی سکیم کی مرہون منت ہے۔ پنجاب میں فوجی وزارت قائم ہوئی۔ یہ وزارت دراصل آئندہ جنگ کی تیاریوں کا مقدمہ تھی۔ یہ برطانوی سرکار کی کامیاب جنگی تدبیروں میں ایک تدبیر تھی۔ (ماخوذ تاریخ احرار ص۱۷۶تا۲۱۷)