٭…
تمام اہل کتاب مسلمان ہوکر امت محمدیہ میں شامل ہو جائیں گے۔
چنانچہ مرزاغلام احمد قادیانی اس کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’ھو الذی ارسل رسولہ باالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کے حق میں پیش گوئی کی ہے اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیاگیا ہے۔ وہ غلبۂ مسیح کے ذریعے ظہور میں آئے گا اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین جمیع اقطار میں پھیل جائے گا۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۴۹۸، خزائن ج۱ ص۵۹۳)
گویا امر مقدر یونہی ہے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو دین محمدؐ کاخادم بناکر آنحضرتﷺ کی شان کو دوبالا کیا جائے کہ آپؐ کا وہ مرتبہ ہے کہ مستقل اور صاحب کتاب رسول بھی آپؐ کی اتباع کو اپنی سعادت سمجھیں۔
حدیث عبداﷲ بن مغفل میں بھی مذکور ہے کہ: ’’حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام، محمدﷺ کے تصدیق کے لئے نازل ہوںگے اور آنحضرتﷺ کی ملت پر ہوںگے۔‘‘
(فتح الباری)
مدیر پیغام صلح غور فرمائیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ نزول کے بعد عیسیٰ علیہ السلام امت محمدیہ میں شامل ہوںگے تو کیا وہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے متبعین میں سے نہ ہوںگے؟ یقینا ہوںگے تو پھر کسر صلیت قتل دجال وغیرہ، جملہ افعال جو ان سے ظاہر ہوںگے وہ آپ ہی کی اتباع سے وقوع میں آئیں گے۔ کیونکہ اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام امت محمدیہؐ کے ایک فرد ہوںگے اور یہ نبی اکرمﷺ کے فیضان کامل کی دلیل ہے یا کہ فیضان ناقص کی؟ نہ معلوم اس میں کیا مضحکہ خیزی ہے؟ اور کون سی امت محمدیہ کی توہین یا ہتک ہے؟ بتایا تو ہوتا۔ امت محمدیہ کو تو اس پر بجا فخر ہے کہ انبیائے سابقین میں سے ایک اولوالعزم پیغمبر بھی حضور خاتم النبیینؓ کا فرمانبردار اور متبع ہوکر امت محمدیہ میں شامل ہوگا۔ مدیر پیغام صلح بتائیں تو سہی کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام اور ختم نبوت میں کون سی منافات ہے؟ اور کیا استحالہ لازم آتا ہے۔
ختم نبوت کے منافی تو اس وقت ہوتا۔ جب کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مرتبۂ رسالت ختم نبوت کے بعد نئے سرے سے عطا کیا جاتا وہ تو آنحضرتﷺ سے ۵۷۰برس قبل عہدہ رسالت سے سرفراز ہوچکے ہیں۔