سکتی۔ اس کا اپنا پروگرام ہونا چاہئے۔ مگر شہید گنج کے حامیوں کا تو کسی مسجد کی تقدیس پر ہی اتفاق نہ تھا۔ کہاں ڈاکٹر عالم اور کہاں مسجد شہید گنج؟ وہ تو الیکشن جیتنے کے لئے مسجد کی آڑ لے رہے تھے۔ مجلس احرار کے ساتھ غریب جماعت ہونے کے باعث انہیں تعاون سے گھن آتی تھی۔ اس لئے اکثر واقعی ان میں جوتا چلا۔ رپٹ رپورٹ تک بھی نوبت پہنچی۔ اتحاد ملت میں ایسے لیڈر پیدا ہوگئے جو کسی سیاسی اخلاق کے مالک نہ تھے۔ ہر روز کے رگڑے جھگڑے سے مولانا ظفر علی خاں کی اتحاد ملت کا وقار کم ہونے لگا۔ سیاست اسلامی کے اس شاطر کامل یعنی میاں سر فضل حسین کی عقابی نظر نے دلہوزی کی بلندیوں سے دیکھا کہ کیا کرایا کام بگڑ رہا ہے۔ اس لئے مولانا ظفر علی خاں کو جو، اب سرکاری مہرے کے طور پر کام کر رہے تھے۔ پہاڑ پر بلایا۔ میاں سر فضل حسین کا خیال تھا کہ احرار کا اثر ورسوخ زیادہ تر ان کی اپنی تنظیم اور بہادری پر قائم ہے۔ کچھ اثر مرزائیت کی مخالفت کے باعث بھی ہے۔ اس لئے وہ چاہتے تھے کہ مرزائیت کو نقصان پہنچائے بغیر تردید مرزائیت کا کام مولوی ظفر علی کے ہاتھ میں دیا جائے۔ اس طرح پبلک کی رہی سہی توجہ احرار سے ہٹا کر اتحاد ملت اور مولانا ظفر علی خاں کی طرف کر دی جائے۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ احرار کو اس منصوبے کی خبر ایک ایسے شخص نے دی جس کو میاں صاحب اپنا معتمد سمجھتے تھے۔ لیکن وہ دل سے میاں صاحب کے عروج کا مخالف تھا۔ اس نے اپنے خاص آدمی کی معرفت پیغام بھیجا کہ تجویزیوں ہوئی ہے کہ مرزائیوں کے خلاف مقدمہ دائر کر کے انہیں خارج از اسلام قرار دلایا جائے۔ مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کی توجہ فضول مقدمہ بازی کی طرف مبذول ہو جائے گی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انگریزی عدالت بالآخر مرزائیوں کے حق میں فیصلہ دے گی۔ مرزائیوں کا اسلام بھی ثابت ہو جائے گا اور کئی سال تک مذہبی رجحان رکھنے والے مسلمانوں کی ہمدردی بھی احرار سے کم ہو جائے گی۔ جوں ہی معتبر ذریعہ سے یہ رپورٹ ہمیں پہنچی۔ ہم نے اسے اخبارات میں شائع کردیا اور اسی اشاعت میں اخبار زمیندار نے میاں سرفضل حسین کی تجویز کو اپنی تجویز ظاہر کر کے شائع کیا۔ ہماری اطلاع بہت پہلے صبح ہی اخبارات میں پہنچ چکی تھی۔ تمام اخبارات اور پبلک کو یقین آگیا کہ مولانا فریب افرنگ میں آگئے ہیں۔ مولانا نے خود بھی محسوس کیا کہ گویا وہ گناہ کبیرہ کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں۔ تجویز کا بھانڈا پھوٹ جانے پر مولانا نے ایسی چپ سادھی کہ پھر کچھ نہیں بولے۔ مولانا صاحب اور میاں صاحب کی ملی بھگت کا شہرہ ہر طرف پھیلا۔ اس سے ان کے مداحوں میں اور مایوسی پھیلی۔ لوگوں نے سمجھ لیا کہ مولانا سستے داموں بک گئے۔