غلط کاروں کی ہاؤ ہو سے ڈر کر قوم کے بچوں کو ایسی بھینٹ نہ چڑھائے۔ جس بھینٹ کا نتیجہ کچھ نہ ہو۔ ہمارے مخالفوں کو قطعی طور پر معلوم تھا کہ ان کی سعی بے نتیجہ ہے۔ پھر بھی وہ قوم کو بے سود عمل پر ابھارتے تھے اور ساتھ ہی انہیں احرار کی دیانت داری پر یقین تھا کہ احرار کبھی قوم کو بے سود خطرے میں نہ ڈالیں گے۔ بس یہی شرانگیز دانائی ہمارے مخالفوں کو بلند بانگ کر رہی تھی۔ لیکن قدرت کو ہم سے جیل خانوں سے سخت تر امتحان لینا منظور تھا۔ مفسد مخالفوں کی نتیجے کے اعتبار سے فضول مگر طوفانی مخالفت اٹھانے کے لحاظ سے بے حد مؤثر غوغا آرائی نے بے شک ہمارا ناطقہ بند کر دیا اور خدا کی زمین ہم پر تنگ کر دی گئی۔ لیکن ابتلاء کے اس زمانے میں جماعت کے ایک والنٹیر کے منہ سے بھی مخالفانہ آواز تو سنائی نہ دی۔ ہمارا ہر شخص جانتا تھا کہ مولانا ظفر علی خان کے اخبار زمیندار نے ۱۹۲۵ء میں مسجد شہید گنج کی بازیابی کی آواز ہی کو شرانگیز صدا قرار دیا تھا۔ ڈاکٹر محمد عالم مسجد شہید کی تقدیس کے قائل نہ تھے کہ اس کے لئے قربانی پر آمادہ ہوتے۔ ہمارے ہر کارکن کے ضمیر کی آواز اور عقل کی رہنمائی اسی طرف تھی کہ یہ تحریک محض احرار کی مخالفت کے لئے اٹھائی گئی ہے۔ اس کی محرک سچائی اور صداقت نہیں بلکہ احرار کو انتخابات میں پچھاڑ کر خود اسمبلی میں پہنچنا ہے۔ اسی بناء پر سب احرار اغراض پرستوں کے خلاف نبرد آزما تھے۔ ایک ایک نوجوان مضبوط چٹان کی طرح اپنی جگہ کھڑا تھا۔ طوفان کا سمندر امڈ آتا تھا اور سرٹکرا کر لوٹ جاتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مرد مجاہد سمندروں کے بگڑے تیوروں کو دیکھ کر خوف وہراس کے بجائے بے پروائی سے کھڑا مسکراتا ہے۔ ہماری آنے والی نسلیں نہ اس ابتلاء کا اندازہ کر سکتی ہیں۔ نہ اس استقلال کا صحیح تصور کر سکتی ہیں۔ جو جماعت کے ہر فرد نے دکھایا۔ نہ دوسری قوموں اور جماعتوں نے ہماری عظیم الشان خدمات کا اعتراف کیا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر جماعت ہماری موت پر خوش تھی۔ کانگریس کے اکابر یہ سمجھتے تھے کہ ہم مسلمانوں کو کانگریس کی شمولیت سے روکے ہوئے ہیں۔ سکھ سمجھتے تھے کہ یہی مسلمانوں میں انقلابی جماعت ہے جو ایثار اور قربانی کی بناء پر ان کے عزائم میں حائل ہے۔ مسلمان امراء اس امر سے پریشان تھے کہ یہ غریب جماعت موری کی اینٹ چوبارے میں لگنے کی آرزو مند ہے اور حکومت پر چھا جانے کی امیدیں لگائے بیٹھی ہے۔ ہو تو ہو یہ کہ جماعت نذر طوفان ہو۔ مولانا ظفر علی خاں، مولانا عبدالقادر، ڈاکٹر عالم وغیرہ حضرات یہ قیاس کرتے تھے کہ احراری کباب میں ہڈی ہیں۔ انہیں نکال دیا جائے تو مزے ہی مزے ہیں۔ احرار سب میں گھرے کھڑے تھے۔ انہیں چو مکھی لڑائی لڑنی پڑ رہی تھی۔ احرار لیڈروں کی برملا بے عزتی کی جاتی تھی۔ ان پر قاتلانہ حملے شروع