کے متعلق سوچتا ہے۔ وہ خدا کے اقراری کے خلاف ایسے ہی جذبات رکھتا ہے جیسے منکر خدا کے متعلق خدا کو ماننے والے۔ پس نفی واثبات کی عملی دنیا میں بحث فضول ہے۔ کیونکہ ذہنی اعتبار سے دونوں کے خیالات کا مرجع ومرکز خدا ہی ہے۔ سب اسی کے متعلق نفی اور اثبات میں سوچتے ہیں۔ اس لئے ہمیں مذہبی دیوانہ کہنے والے خود بھی اسی طرح خطاب کئے جانے کے مستحق ہیں۔ لیکن عمل کی دنیا میں جو کمزور ہے۔ وہ بے شک اپنے مذہب میں کمزور ہے۔ پس احرار، اسلام کو دنیا وآخرت کی سیدھی راہ سمجھتے ہیں۔ مذہبی دیوانہ ہونا ہمارے لئے کچھ چڑ نہیں۔ بشرطیکہ عمل کی دنیا میں ہم مبارک سپاہی ثابت ہوں۔ اگر ہم کام چور اور بے ہمت ہیں تو بے شک مذہب اسلام کے افیونی ہونے کا ہم ثبوت بہم پہنچا رہے ہیں۔ احرار پختہ عمل مذہب کے دیوانے ہیں۔ وہ ہم جانتے ہیں کہ سرکاری نبی اور سرکاری ولی اس دور میں کیوں پیدا ہورہے ہیں۔ صرف اس لئے کہ مسلمانوں میں وہی انتشار اور نئے نئے گروہ پیدا کرنے کا باعث ہوں اور کہیں مسلمانوں کی قوت ایک مرکز پر جمع نہ ہونے پائے۔
نئی نبوت کے دعوے کے ساتھ مسلمانوں کا ایک حصہ مستقل طور پر کٹ کر الگ ہو جاتا ہے۔ مرزائیوں کا کیا حال ہے؟ وہ سب مسلمان کہلانے والوں کو کافر کہتے ہیں اور ہر دم ان کی بیخ کنی کے درپے رہتے ہیں۔ کیونکہ وہ رسول کریمﷺ پر ایمان لانے کو کافی نہیں سمجھتے۔ جو مرزاقادیانی پر ایمان نہ لائے۔ ان کے لئے وہ مسلمان بھی یہودی اور عیسائی کی طرح ہے۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو قریبی دشمن سمجھتے ہیں۔ جس کو سب سے پہلے نیچا دکھانا وہ اپنی ہستی کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری قیاس کرتے ہیں۔ اگر ان کے مسلمانوں کے ساتھ باہم روابط ہیں تو وہ اس لئے کہ سیاسی طور سے مسلمانوں کا جزو بنے رہنا ان کو بے حد مفید ہے۔ اگرمسلمانوں سے علیحدہ رہیں تو ہندوستان میں انہیں کوئی دو کوڑی کو نہ پوچھے۔ اب وہ اکثر سرکاری محکموں میں نمایاں حیثیتوں میں نظر آتے ہیں۔ مرزائی ہم مسلمانوں سے سیاسی اتحادرکھنا چاہتے ہیں۔ تاکہ مسلمانوں کی ملازمتوں اور سیاست پر قبضہ رہے اور ان کی جڑ کاٹنے میں بھی آسانی ہو۔ عیسائی گو اہل کتاب ہیں۔ مگر نبی کریمﷺ پر ایمان نہ لانے کے باعث ہم ان کو مذہبی لحاظ سے مخالف گروہ سمجھتے ہیں۔ اسی طرح مرزائیوں کا ہمارے متعلق قیاس ہے۔
اس زمانے میں ہر قوم یہ حق سمجھتی ہے کہ اپنے اندر ففتھ کالم سے خبردار رہے اور ان کی سازشوں سے بچے، ان کی میٹھی میٹھی باتوں اور ان کی ہمدردیوں سے دھوکہ نہ کھائے۔ کھلے دشمن کا