بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
لوگ بجا طور پر پوچھتے ہیں کہ احرار کو کیاہوگیا کہ مذہب کی دلدل میں پھنس گئے۔ یہاں پھنس کر کون نکلا ہے جو یہ نکلیں گے؟ مگر یہ کون لوگ ہیں؟ وہی جن کا دل غریبوں کی مصیبتوں سے خون کے آنسو روتا ہے۔ وہ مذہب اسلام سے بھی بیزار ہیں۔ اس لئے کہ اس کی ساری تاریخ شہنشاہیت اور جاگیرداری کی دردناک کہانی ہے۔ کسی کو کیا پڑی کہ وہ شہنشاہیت کے خس وخاشاک کے ڈھیر کی چھان بین کر کے اسلام کی سوئی کو ڈھونڈے تاکہ انسانیت کی چاک دامانی کارفو کر سکے؟ اس کے پاس کارل مارکس کے سائینٹیفک سوشلزم کا ہتھیار موجود ہے۔ وہ اس کے ذریعے سے امراء اور سرمایہ داروں کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے۔ اسے اسلام کی اتنی لمبی تاریخ میں سے چند سال کے اوراق کو ڈھونڈ کر اپنی زندگی کے پروگرام بنانے کی فرصت کہاں؟ سرمایہ داروں نے ان برسوں کی تاریخ کے واقعات کو سرمایہ داری کے رنگ میں رنگا اور مساوات انسانی کی تحریک جس کو اسلام کہتے ہیں۔ مذہبی لحاظ سے عوام کی تاریخ نہ رہی اور نہ اس میں کوئی انقلابی سپرٹ باقی رہی۔ عامتہ المسلمین، امیروں، جاگیرداروں کے ہاتھ میں موم کی ناک بن کر رہ گئے۔ ہندوستان میں اس وقت بھی وہ سب سے زیادہ مفلوک الحال مگر حال مست ہیں۔ انہیں اپنے حال کو بدلنے کا کوئی احساس نہیں۔ یہ کیوں ہوا؟ اس لئے کہ خود علمائے مذہب انقلابی سپرٹ سے ناآشنا ہیں اور وہ اب تک مذہب کی اموی اور عباسی عقائد کے مطابق تشریح کر رہے ہیں۔
تاہم کسی کی بے خبری یا کسی گروہ کا تعصب، واقعات کو نہیں بدل سکتا ہے۔ محمد رسول اﷲﷺ نئے دور کے انقلابی تھے۔ درانتی اور کلہاڑا تو اب مزدوروں کی نشانی بنا۔ لیکن جس نے سرمایہ داری پر پہلے کلہاڑا چلایا اور قومی امتیاز کے ان ریشوں کو کاٹ کر رکھ دیا جس نے انسان کو انسان سے علیحدہ کر دیا تھا؟ صرف سرمایہ ہی طبقات پیدا نہیں کرتا۔ بلکہ انسانوں میں گروہ بندی کرنے والے اور بھی محرکات ہیں۔ ان سب سے بڑا ذریعہ مختلف نبیوں پر ایمان ہے۔ قومیں خدا پر ایمان کے نزاع پر مختلف نہیں بلکہ مختلف نبیوں پر ایمان لانے کے باعث الگ الگ ہیں۔ پہلے آمدورفت کے وسائل کی کمی کی وجہ سے ہر ملک ایک الگ دنیا تھی۔ الگ الگ پیغمبروں کے ذریعے ہر ملک کی روحانی تربیت ضروری تھی۔ ایک ملک میں بیٹھ کر سب ملکوں میں پیغام نہ پہنچایا جا سکتا تھا۔ محمد رسول اﷲﷺ پر دین مکمل ہوا۔ آپ نے ’’لا نبی بعدی‘‘ (میرے بعدکوئی نبی نہیں) کا اعلان کر کے دنیا کو اتحاد کا مژدہ سنایا کہ آئندہ نبیوں کی بنا پر قوموں کی تربیت ختم