آٹھواں کہتا ہے کہ محمدﷺ کے فرمان کی اطاعت کرتے ہوئے جو ضروریات دین کو تسلیم کرے میرے نزدیک وہ مسلمان ہے۔ (رپورٹ ص۲۱۵تا۲۱۷)
ان مختلف تعریفات کا تقابل اور تجزیہ کر کے دیکھئے۔ کیا ان کے درمیان مسلمان کی نفس حقیقت میں کوئی فرق ہے؟ ضروریات دین وہی تو ہیں جو محمدﷺ سے ثابت ہیں۔ اسی چیز کے لئے دوسرے الفاظ ماجاء بہ محمد ہیں۔ محمدﷺ کی رسالت کو مان لینے میں قرآن، توحید، آخرت، ملائکہ، انبیاء اورکتب آسمانی سب کا مان لینا آپ سے آپ شامل ہو جاتا ہے اور یہی کچھ قرآن کو مان لینے کا نتیجہ بھی ہے۔ کوئی شخص خواہ قرآن کو ماننے کا اعلان کرے یا یہ کہے کہ میں نے محمدﷺ کی رسالت مان لی یا ایک ایک چیز کا الگ الگ نام لے کر اس کے ماننے کا اقرارکرے۔ تینوں صورتوں میں لازماً ایک ہی اسلام کو قبول کرنے کا اعلان واقرار ہوگا اور محض کلمہ ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ کو مان لینے کا حاصل بھی اس سے ذرہ برابر مختلف نہ ہوگا۔ لہٰذا ان آٹھوں آدمیوں نے مختلف الفاظ میں جس حقیقت کو بیان کیا ہے۔ وہ بعینہ ایک حقیقت ہے۔ مسلمان کے تصور اور اس کے معنی میں ان کے درمیان ایک بال کے برابر بھی فرق نہیں ہے۔ آپ جب چاہیں ان آٹھوں آدمیوں میں سے کسی ایک کی بیان کی ہوئی تعریف دنیا کے کسی عالم دین کے سامنے رکھ دیں۔ وہ بلا تکلف کہہ دے گا کہ یہ مسلمان کی صحیح تعریف ہے۔ خود ان آٹھوں آدمیوں سے پوچھ دیکھئے۔ ان میں سے ہر ایک تسلیم کرے گا کہ دوسرے کی بیان کردہ تعریف غلط نہیں ہے۔ رہا یہ خیال کہ آپ ان میں سے جس کی تعریف کو بھی قبول کریں گے اس کے سوا باقی سب لوگ الٹی آپ کی تکفیر کر ڈالیں گے۔ تو یہ بات اگر محض گفتگو کو مزاح اورلطافت کا رنگ دینے کے لئے نہ کہی گئی ہوتو رپورٹ کا ناظر کچھ نہیں سمجھ سکتا کہ یہ اندیشہ کدھر سے کوئی وزن رکھتا ہے۱؎۔
بظاہر مولانا امین اصلاحی کی بیان کردہ تعریف دوسروں سے مختلف نظر آتی ہے۔ لیکن غور سے دیکھاجائے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ دراصل وہ حقیقی مسلمان اور سیاسی (یا بالفاظ دیگر قانونی) مسلمان کا فرق ظاہر کر کے ایک غلط فہمی کو دور کرنا چاہتے ہیں جو ایک شخص کو مسلمان کی تعریف سن کر لاحق ہوسکتی ہے۔ ان کا مقصد یہ بتانا ہے کہ چند ضروریات دین کے مان لینے والے کو جو ہم مسلمان کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس نے دین کے سارے مطالبے پورے کر دئیے اور اب وہ خدا کے ہاں ان تمام وعدوں کا مستحق ہوگیا۔ جو قرآن وحدیث میں ایک مؤمن ومسلم سے کئے گئے ہیں۔ بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ دنیا میں ایک مسلم سوسائٹی ایسے
۱؎ زیادہ سے زیادہ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ علماء ہر اختلاف پر لازماً تکفیر ہی کیا کرتے ہیں۔