کوئی چیز ہے تو یہی ماننا پڑے گا کہ شاہ صاحب دعوت، وعظ اور خطابت کے میدان میں جو نمایاں مقام رکھتے ہیں وہ لازم نہیں ٹھہراتا کہ شاہ صاحب دین کے تمام شعبوں میں ماہرانہ حیثیت رکھنے کا ادّعا کرتے ہوں اور اسلام کے دستوری مسائل میں ان کی رائے کو سند مانا جائے۔ رہے مولانا ابوالحسنات صاحب تو بلاشبہ وہ علماء میں سے ہیں۔ لیکن اوّل تو ان کی ایک رائے یہ معنی نہیں رکھتی کہ تمام علماء کا اس مسئلے میں یہی نقطۂ نظر ہے۔ دوسرے اگر خود ان سے بھی مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر تحقیقی سوالات کئے جاتے تو معلوم ہو جاتا کہ وہ بھی قانون سازی کی ان صورتوں کے منکر نہیں ہیں۔ جو فقہائے اسلام کے ہاں (بجز ایک فرقۂ ظاہریہ کے) ہمیشہ معروف اور مسلّم رہی ہیں۔ مولانا نے جس چیز کا انکار کیا ہے وہ یہ ہے کہ اعلام میں اس طرح کے مطلق قانون سازی نہیں ہوسکتی۔ جیسی موجودہ دور میں ایک مجلس قانون ساز کیا کرتی ہے اور یہ بالکل صحیح ہے۔ کیونکہ اس نوعیت کی قانون سازی خدا اور رسول کو چھوڑ کر خود شارح بن جانے کی ہم معنی ہے۔ جسے کوئی مسلمان بھی جائز نہیں کہہ سکتا۔ لیکن اسلام میں جو قانون سازی جائز، اور بعض حالات میں ناگزیر ہے اور جو خلفائے راشدین کے دور سے آج تک ہوتی رہی ہے۔ وہ تین طرح کی ہے۔
۱… نص کی مختلف تعبیروں میں سے کسی ایک تعبیر کو اجماعی یا جمہوری فیصلہ سے قانون کی حیثیت دے دینا۱؎۔
۲… قیاس اور اجتہاد سے کوئی حکم نکالنا، یا پہلے کے نکالے ہوئے کسی حکم کو قانون کی حیثیت بخش دینا۔ یہ قیاس یا اجتہاد انفرادی طور پر کسی ایک عالم یا بعض علماء نے کیا ہو تو اس کی حیثیت محض ایک قیاس یا اجتہاد کی ہے۔ لیکن اگر ایک مجلس مجاز یہی فعل کرے یا کسی قیاس واجتہاد کو قبول کرے تو یہی چیز قانون بن جائے گی۔
۳… جن امور کو شریعت نے ہمارے صواب دید پر چھوڑ دیا ہے۔ (مالکیہ کی اصطلاح میں مصالح مرسلہ) ان میں اپنے حالات اور ضروریات کے لحاظ سے قواعد بنانا اور احکام
۱؎ اجماعی فیصلے سے مراد متفقہ فیصلہ ہے اور جمہوری فیصلے سے مراد اکثریت کا فیصلہ۔ جب تک اس طرح کا کوئی فیصلہ نہ ہو۔ ہر عالم دین اپنی تعبیر پر فتویٰ اور ہر قاضی اپنی تعبیر پر مقدمات کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ لیکن اگر کسی ایک تعبیر پر اجماع ثابت ہو جائے تو ایک بااختیار قانون ساز ادارے کے بغیر بھی اسے پوری امت کے علماء اور قضاۃ ایک قانون تسلیم کر لیں گے اور اگر ایک بااختیار مجلس شوریٰ موجود ہو جیسی کہ خلفاء راشدین کے زمانے میں تھی تو اس کا جمہوری فیصلہ بھی قانون قرار پائے گا اور پھر کسی مفتی یا قاضی کو اس کے خلاف فتویٰ اور فیصلہ دینے کا حق نہ رہے گا۔