کہ آپﷺ کی امت میں سے ایک شخص نبوت کا دعویٰ کر رہا ہے۔ انبیائے سابقین سے ایک نبی کا آپؐ کی امت میں داخل ہونا اور ایک شخص آپؐ کے امتی کا دعویٰ نبوت کرنا۔ ان دونوں باتوں میں ملعون قادیان فرق نہ کر سکا۔ مولانا عبدالرشید صاحب اہل حدیث مکتب فکر کے عالم دین نے اس بات کو پھیلایا۔ قرآن وسنت کی روشنی میں اس مسئلہ کو مبرہن کیا تو یہ کتاب تیار ہوگئی۔ مولانا نے اخبار تنظیم اہل حدیث لاہور میں ختم نبوت پر مضمون لکھا۔ اس میں ضمناً نزول مسیح علیہ السلام کی بحث آگئی۔ لاہوری مرزائیوں کے اخبار ہفت روزہ پیغام صلح نے اس پر اشکال قائم کئے۔ مولانا عبدالرشید نے ان کے جوابات تحریر فرمائے۔ جو تنظیم اہل حدیث لاہور میں شائع ہوئے۔ پیغام صلح لاہور کی بولتی بند ہوگئی۔ چناں خفتہ اند کہ گوئی مردہ اند! سوئے کیا کہ گویا مر گئے۔ تنظیم اہل حدیث میں شائع شدہ جوابات کا مجموعہ یہ کتاب ہے۔ اسے شامل اشاعت کرنے پر اﷲ تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہیں۔
ژ… مولانا محمد عبداﷲ محدث روپڑی، کا ایک رسالہ:
۲/۱… مرزائیت اور اسلام: بھی شامل اشاعت ہے۔ مولانا محمد عبداﷲ محدث امرتسری روپڑی اہل حدیث مکتب کے نامور عالم دین تھے۔ آپ نے یہ کتاب ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے دوران میں تحریر کر کے حکومت پر واضح کیا کہ قادیانیت، اسلام کے متوازی ومتبائن ہے۔ قادیانیت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ قادیانیت اور اسلام یا قادیانی اور مسلمان دو علیحدہ علیحدہ حقائق کو باہم دیگر ایک قرار دینا حکومت کی سخت نادانی ہے۔ یہ کتاب ۱۹۵۳ء کے دوران میں لکھی گئی۔ لیکن اشاعت بعد میں ہوئی۔ نصف صدی قبل کی تحریر کی اشاعت پر اﷲ رب العزت کا لاکھوں لاکھ شکر ادا کرتے ہیں۔