دوسروں کے ذہن کو بطور خود پڑھنے کا ایک اسلوب انسانی فکر وکلام میں رائج تو ضرور ہے۔ لیکن ہم غلط یا صحیح… یہ رائے رکھتے ہیں کہ عدالتی کارروائیوں اور فیصلوں میں بھی اگر یہ اسلوب آداخل ہو تو شہادت کا پورا نظریہ بدل جائے گا۔ بلکہ انصاف کے مسلمہ اصولوں میں بھی ترمیم ناگزیر ہو جائے گی۔ چنانچہ اس موقع پر اس اسلوب کے آجانے سے خواجہ ناظم الدین کی لوح خیال کو جب ہم پڑھتے ہیں تو حسب ذیل دلائل ترتیب وار سامنے آنا شروع ہوتے ہیں:
۱… ان مطالبات میں لازماً یہ مفروضہ کام کر رہا ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں مسلمانوں اور غیرمسلموں کے حقوق بنیادی طور پر مختلف ہیں۔
۲… اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ اس طرح کی ایک ریاست میں یہ فیصلہ کرنا ریاست کے عام فرائض میں سے ہے کہ کون مسلمان ہے اور کون نہیں ہے۔ ۳… چوہدری ظفر اﷲ خاں بین الاقوامی دنیا میں معروف اور محترم شخصیت رکھتے ہیں۔ ان کی علیحدگی ضرور دنیا بھر میں شائع ہوتی اور اس پر رائے زنیاں کی جاتیں۔ اس کی کوئی ایسی توجیہ جو بین الاقوامی ضمیر کو مطمئن کر سکے، دریافت ہونی مشکل تھی۔ اس مسئلے کے متعلق دوسری جگہ رپورٹ میں پھر جب ہم خواجہ ناظم الدین کا ذہن پڑھتے ہیں تو وہاں یہ مضمون پاتے ہیں۔ ’’خواجہ ناظم الدین صاحب ان مطالبات کو قبول نہ کر سکتے تھے۔ کیونکہ انہیں قبول کرنا یقینا پاکستان کو دنیا میں مضحکہ بنادیتا اور بین الاقوامی دنیا میں اس کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہو جاتا کہ وہ ایک ترقی پذیر جمہوری ریاست ہے۔‘‘ (ص۲۶۴،۲۶۵)
آگے چل کر پھر خواجہ صاحب ہی کی لوح کے ایک اور عکس میں ہمیں یہ مضمون ملتا ہے: ’’اگر مطالبات قبول کر لئے جاتے تو پاکستان بین الاقوامی برادری سے نکال باہر کیا جاتا۔‘‘ (ص۲۸۲)
۴… دستور مملکت کی رو سے چوہدری ظفر اﷲ خاں اور وہ دوسرے احمدی جو سرکاری مناصب پر ہمیں اپنے عہدے سے صرف اس بناء پر نہیں ہٹائے جاسکتے کہ وہ ایک خاص مذہبی عقیدہ رکھتے ہیں۔
۵… دستور ساز اسمبلی شہریوں کے بنیادی حقوق پر ایک ابتدائی رپورٹ منظورکر چکی ہے۔ جس کی رو سے ہر شہری اپنی قابلیت کے لحاظ سے سرکاری ملازمت میں لئے جانے کا اہل ہے۔ بلا اس لحاظ کے کہ اس کا مذہب، نسل، برادری، صنف اور خاندان کیا ہے اور اس کی جائے پیدائش کون سی ہے۔ نیز ہر شہری کے لئے اس میں ضمیر کی آزادی اور اپنا ایک مذہب رکھنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی آزادی کا ذمہ لیاگیا ہے۔