آگے چل کر اس بحث کے سلسلے میں وہ لکھتا ہے: ’’اس نوعیت کا مارشل لاء انگلستان میں قطعی طور پر دستور کے لئے ایک اجنبی چیز ہے۔ سپاہی ایک فساد کو اس طرح دبا سکتے ہیں جس طرح وہ ایک بیرونی حملے کو رفع کر سکتے ہیں۔ وہ باغیوں سے اسی طرح جنگ کر سکتے ہیں۔ جس طرح وہ غیرملکی دشمنوں سے کر سکتے ہیں۔ مگر وہ ازروئے قانون اس کا کوئی حق نہیں رکھتے کہ فساد یا بدامنی کی سزا لوگوں کو دیں۔ امن قائم کرنے کی کوشش کے دوران میں لڑتے ہوئے باغیوں کو قتل کیا جاسکتا ہے اور قیدیوں کو اگر وہ بھاگ نکلنے کی کوشش کر رہے ہوں، گولی سے مار دیا جاسکتا ہے۔ مگر کوئی ایسی سزائے موت جو ایک کورٹ مارشل کی طرف سے دی جائے، غیر قانونی ہے۔ بلکہ اصولاً ایک مجرمانہ قتل ہے۔‘‘
اسی کتاب میں وہ دوسری جگہ کہتا ہے: ’’وہ (یعنی مارشل لائ) جنگی ضروریات سے پیدا ہوتا ہے اور یہی ضرورت اس کے حدود متعین کرتی ہے۔ ایک ضرورت ہی قاعدے کو پیدا کرتی ہے اور اسی طرح وہی اس قاعدے کے نفاذ کی مدت مقرر کر دیتی ہے۔ اگر حکومت (یعنی فوجی قاعدے پر حکومت) اس وقت بھی جاری رہے جب کہ عدالتیں پھر سے کام کرنے لگی ہوں تو یہ صریح طور پر اختیارات کا غصب ہے۔ مارشل لاء اس جگہ ہر گز موجود نہیں رہ سکتا۔ جہاں عدالتیں کھلی ہوں اور اپنے اختیارات کو پوری طرح بلا مزاحمت استعمال کر رہی ہوں۔‘‘
ہنٹر کمیٹی کی مائناریٹی رپورٹ میں سر جیمس اسٹیفن کی یہ رائے ان کی ’’تاریخ قانون فوجداریٔ انگلستان‘‘ کے حوالہ سے نقل کی گئی ہے: ’’وہ (یعنی فوجی حکام) مزاحمت کے دب جانے کے بعد اور اس حد تک امن قائم ہو جانے کے بعد کہ عام عدالتہائے انصاف کھل سکیں۔ لوگوں کو سزائیں دینے میں حق بجانب نہیں ہیں۔‘‘ (ہنٹر کمیٹی رپورٹ ص۱۰۳)
۱۸۳۸ء میں سرجان کیمبل اور سرآر ایم رالف نے کینیڈا کے گورنر کی طرف سے مارشل لاء نافذ کئے جانے کے اختیارات پر بحث کرتے ہوئے لکھا تھا: ’’جب باقاعدہ عدالتیں کھلی ہوں اور مجرموں کو ان کے حوالے کیا جاسکتا ہو تاکہ وہ عام قانون کے مطابق ان کے بارے میں کارروائی کر سکیں تو جہاں تک ہم سمجھتے ہیں۔ فوج کو دوسرا کوئی طریق کارروائی اختیار کرنے کا حق نہیں ہے… اس معاملے کو ہم جس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس کے لحاظ سے مارشل لاء عام دیوانی یا فوجداری اغراض کے لئے ہرگز نہیں لگایا جاسکتا۔ البتہ فوجداری اغراض کے لئے اس کو صرف اس حد تک استعمال کیا جاسکتا ہے جہاں تک کہ بالفعل مزاحمت سے پیدا شدہ ضرورت اس کے استعمال پر مجبور کرے۔‘‘