تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر تبصرہ
پیش لفظ
پچھلے سال پنجاب کے ہنگاموں کی تحقیقات کے لئے جو عدالت مقرر کی گئی تھی۔ اس کی رپورٹ ابھی تین چار مہینے پہلے شائع ہوئی ہے اور اخبارات میں بالعموم لوگوں کی نگاہ سے گذر چکی ہے۔ اس عدالت کے صدر آنریبل جسٹس محمد منیر تھے۔ جو اس زمانے میں پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے اور اب اس رپورٹ کی اشاعت کے تھوڑی مدت بعد فیڈرل کورٹ، پاکستان کے چیف جسٹس ہوگئے ہیں۔ اس کے دوسرے ممبر پنجاب ہائی کورٹ کے جج آنریبل جسٹس کیانی تھے۔ ایک مخصوص قانون کے تحت تین معاملات کی تحقیق اس عدالت کے سپرد کی گئی تھی۔۱…
وہ حالات جو ۶؍مارچ ۱۹۵۳ء کو لاہور میں مارشل لاء کا اعلان کرنے کے موجب ہوئے۔
۲…
ہنگاموں کی ذمہ داری۔
۳…
ہنگاموں کو روکنے اور بعد میں ان سے عہدہ برآ ہونے کے لئے صوبے کے دیوانی (سول) حکام کی تدابیر کا کافی ہونا یا نہ ہونا۔
عدالت نے جولائی ۱۹۵۳ء کے آغاز سے فروری ۱۹۵۴ء کے اختتام تک اپنی تحقیقات جاری رکھیں اور ۳۸۷صفحات کی ایک مفصل رپورٹ حکومت پنجاب کو پیش کی، جو اپریل ۱۹۵۴ء کے اواخر میں پبلک کے سامنے آئی۔ رپورٹ کو دیکھ کر ہر شخص کی طرح ہم نے بھی یہ محسوس کیا کہ اس میں صرف مذکورۂ بالا تین سپرد کردہ معاملات ہی تک تحقیقات کو محدود نہیں رکھاگیا ہے۔ بلکہ بہت سے دوسرے مسائل پر بھی بحثیں کی گئی ہیں۔ جو نہ صرف بجائے خود بہت غور طلب ہیں۔ بلکہ وہ فاضل ججوں کے قلم سے نکلنے اور سرکاری طور پر شائع ہونے کے باعث دور رس نتائج کی حامل بھی ہیں۔ اسی لئے ہم نے اس پر عجلت کے ساتھ کوئی تبصرہ کر دینا مناسب نہ سمجھا۔ یہ سطور کئی مہینے کے غور وخوض اور تجزیہ وتحلیل کے بعد اب سپرد قلم کی جارہی ہیں۔
تحقیقات کے لئے حکومت کا غلط طریق کار
قبل اس کے کہ ہم اصل رپورٹ پر تبصرے کا آغاز کریں۔ ہم یہ بات صاف طور پر کہہ دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس طریق کار پر سخت اعتراض ہے جو پنجاب کے ان ہنگاموں کی تحقیقات کے لئے حکومت نے اختیار کیا۔ پنجاب میں اس سے پہلے ۱۹۱۹ء میں بھی زبردست