بسم اﷲ الرحمن الرحیم!عاشقان سیدالکونین وپیروان رسول الثقلین کو ضروری اطلاع
برادران اسلام! السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ، آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا یا سنا ہوگا کہ مرزا غلام احمد ملک پنجاب کے قصبہ قادیان کا رہنے والا معمولی پڑھا لکھا شخص تھا۔ پہلے کچہری میں پندرہ روپیہ کا نوکر تھا۔ مختار کاری کا امتحان دیا۔ اس میں ناکام رہا اور مزاج میں چونکہ تکبر اپنے علم کا تھا۔ اس وجہ سے غصہ میں آکر نوکری چھوڑ دی۔ اس وقت امرتسر میں مولوی عبداﷲ صاحب غزنوی ایک بزرگ تھے۔ ان کے پاس جاکر یہ درخواست کی کہ تسخیر کا کوئی عمل یا وظیفہ بتائیے۔ تاکہ مسلمانوں کو میری طرف توجہ ہو۔ معلوم نہیں کہ ان بزرگ نے کیا جواب دیا۔ مگر مرزا قادیانی نے کمانے کی دوسری فکر سوچی۔ اتفاق سے اس وقت پادریوں نے ہر جگہ زور کیا تھا اور اسلام پر اعتراض کرتے تھے۔ اس میں مرزا قادیانی کو مسلمانوں کے متوجہ کرنے کا موقع ملا اور ایک کتاب لکھنا شروع کی اور اسلام کی حقانیت پر ایک دلیل لکھی اور اسے ایک نہایت موٹے اشتہار کے ساتھ مشتہر کیا۔ اس کا حاصل یہ تھا کہ ہم حقانیت اسلام پر اسی طرح کی تین سو دلیلیں لکھیں گے۔ اس کی قیمت پیشگی دو۔ تاکہ ہم اسے چھپواکر مشتہر کریں۔ چونکہ اس وقت مسلمان پادریوں کی یورش سے پریشان ہوگئے تھے۔ اس لئے اس اشتہار نے ان پر بہت اثر کیا اورمرزا قادیانی کو روپیہ بھیجنا شروع کیا۔ ان کے بعض پرانے احباب نے لکھا ہے کہ دس ہزار روپیہ اس ذریعہ سے انہیں ملے۔ اسی اثناء میں ایک پادری سے چھیڑ چھاڑ ہوگئی اور انہوں نے اپنی طبعی شہرت پسندی کی وجہ سے اس سے خوب اشتہار بازی اور دعوے کئے اور مناظرہ اس سے کیا اور یہ ظاہر ہے کہ کوئی پادری اسلام کے مقابلہ میں کبھی سرسبز نہیں ہوا۔ وہ پادری بھی ناکام رہا اور مسلمانوں میں ان کی وقعت ہوئی۔ اس وجہ سے مرزا قادیانی کا دماغ بہت بلند ہوا اور دعویٰ کیا کہ میں اس وقت کا امام ہوں۔مجدد ہوں۔ اس کو کچھ لوگ مان گئے۔ پھر انہوں نے اور ترقی کی جس کا بیان آئندہ آئے گا۔
جب علمائے کاملین نے دیکھا کہ ان کے دعوئوں سے مسلمان گمراہ ہوگئے اور ہورہے ہیں۔ اس لئے ان کی حالت کے بیان میں رسالے لکھے۔ خصوصاًفیصلہ آسمانی اور دوسری شہادت آسمانی وغیرہ خانقاہ رحمانیہ مونگیر صوبہ بہار سے شائع ہوئے۔ پہلے رسالہ میں مرزا قادیانی کی