جولائی ۱۹۰۶ء کو خداتعالیٰ نے اس شخص کے ہلاک ہونے کی خبر مجھے دی ہے کہ اس تاریخ سے تین برس تک ہلاک ہو جائے گا۔ جب اس حد تک نوبت پہنچ گئی تو اب میں بھی اس بات میں کچھ مضائقہ نہیں دیکھتا کہ جو کچھ خدا نے اس کی نسبت میرے پر ظاہر فرمایا ہے۔ میں بھی شائع کروں اور درحققیت اس میں قوم کی بھلائی ہے۔ کیونکہ اگر درحقیقت میں خداتعالیٰ کے نزدیک کذاب ہوں اور پچیس برس سے دن رات خدا پر افتراء کر رہا ہوں اور اس کی عظمت اور جلال سے بے خوف ہوکر اس پر جھوٹ باندھتا ہوں اور اس کی مخلوق کے ساتھ بھی میرا یہ معاملہ ہے کہ میں لوگوں کا مال بددیانتی اور حرام خوری کے طریق سے کھاتا ہوں اور خدا کی مخلوق کو اپنی بدکرداری اور نفس پرستی کے جوش سے دکھ دیتا ہوں تو اس صورت میں تمام بدکرداروں سے بڑھ کر سزا کے لائق ہوں۔ تاکہ لوگ میرے فتنہ سے نجات پاویں اور اگرمیں ایسا نہیں ہوں۔ جیسا کہ میاں عبدالحکیم خان نے سمجھا ہے تو میں امید رکھتا ہوں کہ خدا مجھ کو ایسی ذلت کی موت نہیں دے گا کہ میرے آگے بھی لعنت ہو اور میرے پیچھے بھی۔ میں خدا کی آنکھ سے مخفی نہیں۔ مجھے کون جانتا ہے۔ مگر وہی اس لئے میں اس وقت دونوں پیش گوئیاں یعنی میاں عبدالحکیم خاں کی میری نسبت پیش گوئی اور اس کے مقابل پر جو خدا نے میرے پر ظاہر کیا، ذیل میں لکھتا ہوں اور اس کا انصاف خدا قادر پر چھوڑتا ہوں اور وہ یہ ہیں۔
میاں عبدالحکیم خاں صاحب اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ کی میری نسبت پیش گوئی
جو اخویم مولوی نوردین صاحب کی طرف اپنے خط میں لکھتے ہیں۔ ان کے اپنے الفاظ یہ ہیں۔ ’’مرزاقادیانی کے خلاف ۱۲؍جولائی ۱۹۰۶ء کو یہ الہامات ہوئے ہیں۔ مرزا مسرف، کذاب اور عیار ہے۔ صادق کے سامنے شریر فنا ہو جائے گا اور اس کی میعاد تین سال بتائی گئی ہے۱؎۔‘‘ اس کے مقابل پر وہ پیش گوئی ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے میاں عبدالحکیم خاں صاحب اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ کی نسبت مجھے معلوم ہوئی۔ جس کے الفاظ یہ ہیں۔
’’خدا کے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں اور وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں۔‘‘
۱؎ اس میں عبدالحکیم خان نے خدا کے اصل لفظ بیان نہیں کئے۔ بلکہ یہ کہا کہ تین سال میعاد بتائی گئی۔