اس کا مطلب یہ ہوا کہ محمدی بیگم کے خاوند پہلے فوت ہوجائیں گے۔ محمدی بیگم بیوہ ہو جائے گی اور پھر وہ مرزاغلام احمد قادیانی سے نکاح کرے گی۔
مگر مرزاغلام احمد قادیانی ۱۹۰۸ء میں فوت ہوگیا اور محمدی بیگم اور ان کے رفیق حیات ایک عرصہ تک زندہ رہے۔ یہاں تک کہ محمدی بیگم کے خاوند نے ۱۴؍نومبر ۱۹۳۰ء کو اخبار اہل حدیث (امرتسر) کو لکھا کہ وہ تاحال زندہ ہیں۔ محمدی بیگم ان کے گھر میں آباد ہیں۔ وہ مرزاقادیانی اور اس کے دین کو برا سمجھتے ہیں۔
مرزاغلام احمد قادیانی کی بشارت اپنی عمر کے متعلق جو جھوٹی ثابت ہوئی
’’وموت ماخوا ستند ودراں پیش گوئی کردند پس خداما رابشارت ہشتاد سال عمر داد بلکہ شاید ازیں زیادہ۔ یعنی بشارت ہوئی کہ میری عمر اسی سال ہوگی یااس سے زیادہ۔‘‘
(مواہب الرحمن ص۲۱، خزائن ج۱۹ ص۲۳۹)
لیکن مرزاغلام احمد قادیانی ارسٹھ سال کی عمر میں ہی چل بسے اور پیش گوئی غلط ثابت ہوئی۔ یہ ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں پیدا ہوئے۔ (جیسا کہ انہوں نے اپنی پیدائش کے متعلق خود لکھا ہے) اور ۱۹۰۸ء میں مرگئے۔
گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے
آخر میں مرزاغلام احمد قادیانی کا اپنے کذب کے متعلق الہام اور پیش گوئی پیش ہے جو انہوں نے اپنے مرید خاص میاں عبدالحکیم خان صاحب کے متعلق کی جو بیس۱؎ برس تک ان کا حلقہ بگوش رہا۔ وہ مرزاقادیانی کے ہر مفروضہ دعویٰ اور سازش کو بھانپ چکا تھا۔ اس نے نہ صرف مرزاقادیانی کو کاذب اور دجال کہا بلکہ پیش گوئی بھی کی کہ چونکہ مرزاقادیانی کذاب اور مفتری ہے۔ اس لئے وہ تین سال کے اندر اندر مر جائے گا وغیرہ وغیرہ۔
(مجموعہ اشتہارات حصہ سوم ص۵۵۸)
۱؎ خاتم النبیینﷺ نے صرف ۲۳سال کی قلیل مدت میں عرب جیسی اجڈ اور اکھڑ قوم کو خدارسیدہ بنادیا اور لاکھوں مخلص مرید وصحابیؓ پیدا کئے۔ مگر مرزاقادیانی جو اپنے آپ کو حضورؐ کا ظل اور بروز کہتا ہے۔ بیس سال کی طویل مدت میں بھی میاں عبدالحکیم خان صاحب اور ان جیسے لاتعداد مریدوں کو بھی اپنا گرویدہ نہ بناسکا۔ بلکہ انہوں نے ان کو کذاب اور مفتری وغیرہ کے القاب دئیے۔ مؤلف!