(۳)نبی صاحب کتاب ہوتا ہے۔
مرزاقادیانی پر کوئی الہامی کتاب نازل نہیں ہوئی۔
(۴)نبی مطاع ہوتا ہے۔
مرزاقادیانی انگریزوں کا مطیع اور ان کا خودکاشتہ پودا تھا۔
(۵)نبی شاعر نہیں ہوتا۔
مرزاقادیانی شاعر تھا۔
(۶)نبی دین سکھانے کی اجرت نہیں مانگتا۔
مرزاقادیانی اپنی کتابوں کی طباعت واشاعت کے لئے ہمیشہ اجرت طلب کرتا رہا۔
(۷)نبی پر اس کی قومی زبان میں وحی کا نزول ہوتا ہے۔
مرزاقادیانی پر سنسکرت، فارسی، اردو، عبرانی اور انگریزی میں وحی ہوئی۔ جن میں سے بعض کو وہ خود بھی نہیں سمجھ سکا۔
(۸)نبی اکمل العقل والحفظ ہوتا ہے۔
مرزاقادیانی کا حافظہ کمزور تھا۔ یہاں تک کہ گڑ کے ڈھیلے اور مٹی کے ڈھیلے میں تمیز نہ کر سکا۔
(۹)نبی کسی کا ملازم یا نوکر نہیں ہوتا۔
مرزاقادیانی پندرہ روپے ماہوار مشاہرہ پر سیالکوٹ کی کچہری میں ملازم تھا۔
(۱۰)نبی کامل الاخلاق ہوتا ہے۔
مرزاقادیانی بدگو اور بدکلام تھا۔
(۱۱)ہر نبی کا نام واحد تھا۔ جیسے آدمؑ، نوحؑ، ابراہیمؑ، موسیٰؑ، عیسیٰؑ، محمدﷺ۔
مرزاقادیانی کا نام جمع یعنی دو ناموں غلام اور احمد کا مرکب ہے۔ یعنی غلام ہوکر آقا کے تخت پر بیٹھنے کا حریص ہے۔
(۱۲)نبی کا کوئی انسان استاد نہیں ہوتا۔
مرزاقادیانی کے اردو، فارسی، عربی اور انگریزی کے کئی استاد تھے۔ جن میں فضل الٰہی، فضل احمد، گل علی شاہ اور ڈاکٹر امیر شاہ مشہور ہیں۔
(۱۳)نبی مصنف نہیں ہوتا۔
مرزاقادیانی تقریباً سوکتابوں کا مصنف ہے۔
(۱۴)نبی کے کلام میں تضاد نہیں ہوتا۔
مرزاقادیانی کی تمام تصانیف تضاد سے بھری پڑی ہیں۔