جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں۔ مرزاغلام احمد قادیانی چونکہ عربی زبان سے واقف تھا۔ اسے صرف ونحو اور منطق کا شعور تھا۔ دنیا کو بیوقوف بنانے اور اپنی مفروضہ امامت ورسالت ومحدثیت ونبوت کا ڈھونگ رچانے کے لئے قرآن حکیم جو بشکل وحی خاتم النبیینﷺ پر نازل ہوا۔ اس کی بعض آیات کے ٹکڑوں کو من وعن اور بعض مختلف آیات کے ٹکڑوں کو ملاکر اپنی وحی کے طور پر پیش کرتا تھا۔ حالانکہ یہ وحی کے کلمات خاتم النبیینؐ پر نازل ہوئے تھے۔ کتاب اﷲ اور دین حق مکمل ہوچکا تھا۔ اس لئے دوبارہ ان کا کسی پر نازل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ اﷲاپنی سنت کے خلاف کبھی نہیں کرتا۔
مرزاغلام احمد قادیانی کی آخری کتاب (حقیقت الوحی) بھی عجیب چوں چوں کا مربہ ہے۔ اس کا ص۷۰تاص۱۰۸ آیات قرآنی، اردو، انگریزی اور دیگر غیرملکی زبانوں میں الہامات ووحی کی آمیزش کا ایسا خودساختہ مجموعہ ہے۔ جس سے ان کے عزائم اور ارادوں کی حقیقت منکشف ہو جاتی ہے اور آمیزش کسی چیز میں صرف دھوکا دینے اور دنیاوی منفعت چاہنے کے لئے ہی کی جاتی ہے۔ مثلاً دودھ میں پانی اسی لئے ملایا جاتا ہے کہ دھوکا دے کر زیادہ پیسہ کمایا جائے۔ یا اصلی گھی میں ڈالڈا وغیرہ ملانے کا مقصد بھی دھوکا وفریب دینا اور دنیاوی مال ودولت کمانا ہی مقصود ہوتا ہے۔ مگر آخرت برباد ہو جاتی ہے۔ بطور نمونہ صرف ایک ٹکڑا ملاحظہ فرمائیں۔ جس میں قرآنی وحی کے الفاظ انگریزی لفظ (Feeling) اور اردو کی عبارت کی آمیزش کر کے عوام کو دھوکا دیا گیا ہے کہ یہ الفاظ ان (مرزاغلام احمد قادیانی) پر بطور وحی نازل ہوئے ہیں۔
’’الم تعلم ان اﷲ علی کل شیٔ قدیر۰ یلقی الروح علی من یشاء من عبادہ کل برکۃ من محمدﷺ فتبارک من علم وتعلم‘‘ خدا کی فیلنگ اور خدا کی مہر نے کتنا بڑا کام کیا۔ ’’انی معک ومع اہلک ومع کل من احبک‘‘
(حقیقت الوحی ص۹۵،۹۶، خزائن ج۲۲ ص۹۹)
کیا اﷲتعالیٰ نے کسی نبی پر تین ایسی زبانوں میں وحی نازل کی جو خود اس نبی کی قومی زبانیں نہ تھیں۔ ماسوا مرزاغلام احمد قادیانی کے جو پنجاب کے ضلع گورداسپور کے ایک پسماندہ گاؤں قادیان میں پیدا ہوا۔ جہاں سکھوں کی حکومت تھی اور جس ضلع اور گاؤں کی ٹھیٹھ پنجابی زبان تھی۔