اور اپنے الہامات کے متعلق لکھا: ’’بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں بھی ہوتے ہیں۔ جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں۔ جیسے انگریزی یا سنسکرت یا عبرانی۔‘‘
(نزول المسیح ص۵۷، خزائن ج۱۸ ص۴۳۵)
اور اپنی علمی استعداد کے متعلق اپنے ایک مرید کو لکھا کہ وہ بعض الہامات کو خود سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ’’چونکہ اس ہفتے میں بعض کلمات انگریزی وغیرہ الہام ہوئے ہیں اور اگرچہ بعض ان میں سے ایک ہندو لڑکے سے دریافت کئے ہیں۔ مگر قابل اطمینان نہیں اور بعض منجانب اﷲ بطور ترجمہ الہام ہوا تھا اور بعض کلمات عبرانی ہیں۔ ان سب کی تحقیق وتنقیح ضرور ہے۔ آپ جہاں تک ممکن ہو بہت جلد دریافت کر کے صاف خط میں جو پڑھا جاوے۔ اطلاع بخشیں۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ ج۱ ص۶۸)
ماشاء اﷲ ایک مدعی محدثیت، امامت، نبوت اور رسالت جسے یہ دعویٰ ہے کہ اﷲتبارک وتعالیٰ اس پر وحی نازل فرماتا ہے اور وہ تمام نسل آدم کے لئے بشیر ونذیر ہوکر مبعوث ہوا ہے۔ اس کی علمی استعداد یہ ہے کہ وہ خالق حقیقی کے الہامات کی زبان اور مقصد ومطلب ومعارف بھی سمجھنے سے قاصر ہے۔ انہیں سمجھنے کے لئے وہ ایک بت پرست ہندو عالم وفاضل کے پاس نہیں گیا۔ بلکہ ایک ہندو لڑکے کی خدمت میں حاضر ہوا اور باقی الہامات کے لئے اپنے مرید خاص میر عباس علی شاہ کی خدمت میں مندرجہ بالا خط کے ذریعے استدعا کر رہا ہے کہ ان الہامات کی تحقیق وتنقیح ودریافت کر کے جلد بھجوائے۔
مرزاقادیانی کے کذب دعویٰ کے متعلق اس سے بڑی اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ اﷲتعالیٰ نے نسل انسانی کی فلاح وبہبود کے لئے نبی آخرالزمانﷺ کی امت میں سے ایک ایسے شخص کو نبوت ومحدث ورسالت وامامت کے منصب جلیلہ کے لئے منتخب فرمایا۔ جو خالق باری تعالیٰ کے کلام ووحی کے معانی ومطالب اور معارف سمجھنے کے لئے خود بھی ان لوگوں کا محتاج ہے۔ جن کی طرف وہ بشیر ونذیر بناکر مبعوث کیاگیا تھا اور جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ جس نے اسے نہ پہنچانا وہ کافر کی موت مرا۔ لیکن وہ خود اپنے آپ کو بھی نہ پہچان سکا کہ وہ کیا ہے اور کیا دعویٰ کر رہا ہے۔
یعنی اﷲ تبارک وتعالیٰ جیسے خالق اور عقل کل کو مرزاغلام احمد قادیانی کے انتخاب کے وقت یہ بھی معلوم نہ ہوسکا کہ مرزاغلام احمد قادیانی تو اس کی وحی کو سمجھنے کا بھی اہل نہ ہوگااور وہ دوسروں کو کیا سمجھا جائے گا۔ جو خالق کائنات پر سراسر افتراء اور بہتان عظیم ہے۔