اس میں شک نہیں کہ جو شخص مراق مالیخولیا جنوں کا بزبان خود مقر ہو وہ ہرگز نبی نہیں ہوسکا۔ (ریویو بابت اگست ۱۹۲۶ء ص۷۰۶)
ایک مدعی الہام کے متعلق اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس کو ہسٹریا، مالیخولیا مرگی کا مرض تو اس کی تردید کے لئے پھر کسی اور ضرب کی ضرورت نہیں رہتی۔ کیونکہ یہ ایسی چوٹ ہے جو اس کی صداقت کی عمارت کو بیخ وبن سے اکھیڑ دیتی ہے۔ (ریویو اگست ۱۹۲۶ئ)
نیز مرزاقادیانی فرماتے ہیں۔ میری بی بی کو بھی مراق کی بیماری ہے۔ شاید میاں محمود صاحب کے مراقی ہونے کی یہی وجہ ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح ثانی (میاں محمود احمد) نے فرمایا کہ مجھ کو بھی کبھی کبھی مراق کا دورہ ہوتا ہے۔ (مسئلہ اجرائے نبوت اسی کا نتیجہ ہے)
مراقی کی عزت واحترام کیا ہے؟
(کتاب البریہ ص۲۵۶، خزائن ج۱۳ ص۲۷۴) کے حاشیہ پر مرزاقادیانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر جانے کے متعلق لکھتے ہیں۔ ’’مگر یہ بات تو جھوٹا منصوبہ یا کسی مراقی عورت کا وہم تھا۔‘‘ یعنی بے اعتبار ہے تو جب مراقی کی بات کا اعتبار نہیں تو مرزاقادیانی جس وقت کہ وہ خود اقراری مراقی ہیں تو ان کے دعاوی کیونکر قابل اعتبار ہو جائیں گے۔
خلاصتہ الکلام یہ کہ چوٹی کے حکماء واطباء کی تحقیق یہ ہے کہ مراق مالیخولیا وغیرہ دماغی امراض جس میں پائی جائیں تو وہ مختلف دعویٰ مثلاً خدائی پیغمبر علم غیب پیش گوئیاں فرشتہ ہونا، بادشاہ ہونا، نبی، رسول، مہدی وغیرہ ہمچوں قسم دعویٰ کرنے کا عادی ہوجاتا ہے اور جب مرزاقادیانی بقول خود اقراری ہیں کہ میں مراق وغیرہ کا مریض ہوں تو یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ مرزاقادیانی نے جتنے دعوے کئے ہیں۔ وہ سب کے سب مراق مالیخولیا وغیرہ دماغ امراض کا اثر ہے اور ان کا ذرا بھر اعتبار نہیں۔ بلکہ یہ مصیبت بالا مصیبت بڑھ جائے گی کہ جیسے مرزاقادیانی کے جملہ دعاوی بے اعتباری ہوگئے۔ اسی طرح مرزامحمود خلیفہ المسیح ثانی بلکہ ان کی والدہ کے اقوال وافعال بھی درجہ اعتبار سے گر جائیں گے۔ جس سے یہ بڑی کاوش سے بنائی عمارت نبوت وغیرہ دھڑام سے گر گئی۔
مرزاقادیانی نے افیون استعمال کی
’’حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) فرمایا کرتے تھے کہ بعض اطباء کے نزدیک افیون نصف طب ہے۔ حضرت مسیح موعود نے تریاق الٰہی دوا خداتعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت بنائی اور اس