(براہین احمدیہ ص۴۲۹ حاشیہ) ’’وان یسلبہم الذباب شیئاً لا یستنقذوہ ضعف الطالب والمطلوب‘‘ حالانکہ قرآن مجید میں یوں ہے۔ ’’یستنقذوا منہ‘‘ یہاں پر لفظ منہ چھوڑ گئے۔ (براہین احمدیہ ص۴۲۸، ست بچن ص۱۰۰) پر لکھتے ہیں۔ ’’فمن یرجوا القاء ربہ‘‘ یہاں پر لفظ کان چھوڑا کیونکہ قرآن میں یوں ہے۔ ’’فمن کان یرجوا‘‘
(براہین ص۴۲۸ حاشیہ) ’’وھم من خشیۃ ربہم مشفقون‘‘ یہاں ضمیرہ چھوڑی اور لفظ ربہم زیادہ کر دیا کہ قرآن میں یوں ہے۔ ’’وہم من خشیتہ مشفقون‘‘ ہے۔
(تحفہ گولڑویہ ص۱۴ حاشیہ) پر ہے۔ ’’انک فی ضلالک القدیم‘‘ یہاں لام چھوڑ دیا کہ اصل میں آیت یوں ہے۔ ’’انک لفی ضلالک القدیم‘‘
(الحق مباحثہ دہلی ص۳۵) پر ہے۔ ’’وانزلنا من الانعام ثمینۃ‘‘
(حمامتہ البشریٰ عربی ص۱۷،۷۴) پر ہے۔ یہاں پر تینوں جگہ لکم نہیں لکھا۔ اصل آیت یوں ہے۔ ’’وانزل لکم من الانعام‘‘
(سراج المنیر ص۲۹، اربعین نمبر۳ ص۳۵، ضمیمہ تحفہ گولڑویہ) پر لکھتے ہیں۔ ’’آمنت بالذی امنت بہ بنو اسرائیل‘‘
اور (رسالہ استفتاء حاصیہ ص۲۲) پر یوں ہے۔ ’’امنت بالذی امنوا بہ بنو اسرائیل‘‘ حالانکہ قرآن مجید میں یوں ہے۔ ’’امنت انہ لا الہ الا الذی امنت بہ بنواسرائیل‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۳۲) پر ہے۔ ’’ونزلنا علیکم لباسا‘‘
اور (حمامتہ البشریٰ ص۱۷) پر ہے۔ ’’وانزلنا علیکم لباساً‘‘ حالانکہ قرآن مجید میں یوں ہے۔ ’’قد انزلنا علیکم لباساً یواریٰ‘‘ وغیرہ اور ہزاروں حوالہ جات دئیے جاسکتے ہیں۔ جن سے نیم روز سے زیادہ واضح ہو جاتا ہے کہ مرزاقادیانی قرآن مجید میں کمزور اور کچے تھے۔ ورنہ زبردست کمزوریاں کا مکررسہ کرر اعادہ ان سے نہ ہوتا۔
ناظرین باتمکین! جب آپ نے مرزاقادیانی کی یہ کمزوری قرآن مجید میں محسوس کر لی اور ان کی ہمہ دانی کا پتہ چل گیا تو خیال فرمائیں کہ پھر احادیث مبارکہ میں کیا گل کھلائے ہوں گے اور پھر جب کہ باقاعدہ طور پر مرزاقادیانی نے فن حدیث کو کسی ماہر استاد سے پڑھا بھی نہ ہو، تو پھر کیا رنگ چڑھایا ہوگا۔ حیرانگی ہے کہ مرزاقادیانی نے احادیث سے استدلال کس جرأت سے کیا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ مرزاقادیانی حدیث سے زیادہ مانوس نہ تھے اور اسی وجہ سے پردہ پوشی کی خاطر مرزاقادیانی نے یہ کہہ دیا ہے کہ جو حدیث میرے الہام کے خلاف ہوگی میں اس کو ردی کی