گیارہ میل پر موضع کادیان واقعہ ہے اور مرزا غلام احمد قادیانی اس موضع کادیان کے رہنے والے تھے۔ جس کو انہوں نے مل ملا کر قادیان سے مشہور کر دیا۔ صحیح نام کادیان ہی ہے۔ اہل پنجاب اب بھی اس کو کادیان ہی کہتے ہیں۔ پنجابی میں کادی کیوڑہ کو کہتے ہیں۔ اس میں بھی کیوڑہ فروش رہا کرتے تھے۔ لہٰذا کادیان نام پڑگیا۔ مرزاقادیانی نے زرکثیر صرف فرماکر اس کو سرکاری کاغذات میں قادیان لکھوایا اور کہا کہ اصل لفظ قادیان تھا۔ کثرت تلفظ سے اس قدر تغیر رونما ہوگیاہے۔ حالانکہ یہ سب غلط فاحش ہے… مرزاقادیانی ۱۲۶۱ھ کے مطابق ۱۸۴۵ء میں پیدا ہوئے اور چوبیس ربیع الثانی ۱۳۲۰ھ مطابق ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء میں مرگئے۔ مرزاقادیانی کے والد مرزاغلام مرتضیٰ قادیانی طب کا پیشہ معمولی طور پر رکھتے تھے اور مختصر سی زمینداری بھی تھی۔ مرزاقادیانی نے ابتداء عمر میں کچھ فارسی اور عربی پڑھی۔ ابھی درسی کتابیں ختم نہ ہونے پائی تھیں کہ فکر معاش لاحق ہوئی اور اس قدر پریشان ہوئے کہ تحصیل علم چھوڑ کر نوکری کی تلاش کی اور ابتدائی زمانہ نہایت ہی گمنامی اور عسرت میں گذرا۔ جیسا کہ مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (البریہ ص۱۴۴تا۱۷۷، خزائن ج۱۳ ص۱۶۲تا۱۹۵) میں بڑی تفصیل سے اپنی مفلسی وتنگ دستی کو بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ میرے باپ دادا بھی انہی سختیوں میں مر گئے۔ المختصر کہ مرزاقادیانی سب سرگرانی اور پریشانی کے بعد بمشکل سیالکوٹ کی کچہری میں پندرہ روپیہ ماہوار پر ملازم ہوئے۔ مگر اس قلیل رقم کے ساتھ فراغت کے ساتھ بودوباش مشکل تھی۔ لہٰذا سوچا کہ مختاری کا قانون پاس کر کے مختاری شروع کر دی جائے۔ چنانچہ بڑی محنت سے قانون شروع کیا۔ مگر قسمت میں لکھا پیش آیا۔ امتحان دیا تو ڈبل فیل ہوئے۔ لیکن آدمی چونکہ چلتے پھرتے تھے۔ اپنی معاش کی وسعت اور فراخی کے لئے ایک اور راستہ تلاش کیا۔ اشتہار اور تالیف وتصنیف کے ذریعے سے شہرت حاصل کرنے کے درپے ہوئے۔ سب سے پہلے آریوں سے منہ لگایا اور بڑے زور وشور اور آب وتاب سے اشتہار نکالے اور اسی کی وجہ سے مسلمانوں سے ہزاروں روپوں کا چندہ ہضم کر گئے اور یہ کہہ کر کہ میں مسلمانوں کی طرف سے آریہ مذہب کا مقابلہ کر رہا ہوں۔ خوب روپیہ بٹورا اور غالباً اسی وقت سے مرزاقادیانی کے دماغ میں یہ بات جگہ کرگئی تھی کہ تدریجاً مجددیت، مسیحیت، نبوت ورسالت مہدیت وغیرہ کے دعویٰ کرنے چاہیں۔ اگر یہ جال پورے طریقے سے چل گیا تو پھر کیا ہے۔ ایک بڑی سلطنت کا لطف آجائے گا اور اگر نہ چلا تو اب کون سی عزت ہے۔ جس کے جانے کا خوف وہراس ہو۔
چنانچہ ابتدائی زمانہ میں کچھ دنوں سرسید احمد خان علی گڑھ سے بھی ملاقات کا اتفاق ہوا اور وہ چونکہ ایک صوفی منش ایک نئی روشنی کا آدمی تھا۔ اس کے روشنی آمیز خیالات نے مرزاقادیانی