(انجیل لوقا باب ۲۲ آیت۵۰تا۵۲) ’’تب وہ (عیسیٰ علیہ السلام) انہیں وہاں سے باہر بیت عناتک لے گیا اور اپنے ہاتھ اٹھا کر انہیں برکت دی اور ایسا ہوا کہ جب وہ انہیں برکت دے رہا تھا۔ ان سے جدا ہوا اور آسمان پر اٹھایا گیا۔‘‘ کس قدر صاف تصریح ہے۔ رفع جسمی کی کیونکہ روح کے ہاتھ ہی کہاں ہیں کہ ان سے دعا کرے۔
(اعمال باب۱ آیت۹،۱۰) اور یہ کہہ کے ان کے دیکھتے ہوئے اوپر اٹھایا گیا اور بدلی نے اسے ان کی نظروں سے چھپا لیا اور اس کے جاتے ہوئے جب وہ آسمان کی طرف تک رہے تھے۔ دو مرد سفید پوشاک پہنے ان کے پاس کھڑے تھے اور کہنے لگے کہ اے جلیل مردو! تم کیوں کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے ہو۔ یہی جو یسوع تمہارے پاس سے آسمان کی طرف اٹھایا گیا اسی طرح جس طرح تم نے اسے آسمان پر جاتے دیکھا۔ پھر آوے گا۔
(انجیل مرقس باب۱۶ آیت۱۹) عرض خداوندی (عیسیٰ علیہ السلام) انہیں ایسا فرمانے کے بعد آسمان پر اٹھایا گیا۔
(انجیل لوقا باب۲۴ آیت۳۶) ’’میرے ہاتھ پاؤں دیکھ کہ میں ہوں اور مجھے چھوڑ اور دیکھو کیونکہ روح کو ہڈی اور جسم نہیں۔ جیسا مجھ میں دیکھتے ہو اور یہ کہہ کے انہیں اپنے ہاتھ پاؤں دکھلائے۔‘‘ کس قدر آپ خود رفع روحانی کی تردید فرمارہے ہیں کہ فقط یہی نہیں ہوا بلکہ رفع جسمی مع رفع روحانی ہوا ہے۔ مرزاقادیانی اپنی الہامی کتاب (براہین احمدیہ ص۴۹۸،۴۹۹، خزائن ج۱ ص۵۹۳) پر تحریر کرتے ہیں: ’’اور جب مسیح علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق واقطار میں پھیل جائے گا۔‘‘ یہ مضمون چونکہ الہامی ہے۔ لہٰذا بالکل صادق ہے اور اس لئے بھی سچا ہے کہ قرآن وحدیث پر اجماع کے موافق ہے۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ آپ تو ابھی تک زندہ ہیں اور بعینہ اتریں گے۔
(براہین احمدیہ ص۳۶۱، خزائن ج۱ ص۴۳۱) مصنفہ مرزاقادیانی میں ہے۔ ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو انجیل کو ناقص کی ناقص چھوڑ کر آسمان پر جابیٹھے۔‘‘ دیکھئے کس قدر زبردست تصریح ہے کہ رفع بجسم ہوا نہ روحہ۔
حضرات ناظرین! باتمکین یہ تین سو بتیس سے زائد حوالہ جات ہیں۔ جن سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام بجسمہ آسمان پر اٹھائے گئے اور اب تک وہ بلااکل وشرب زندہ ہیں۔ وہ مقتول ومصلوب ہرگز نہیں ہوئے۔ بلکہ نہ سولی پر چڑھائے گئے اور نہ ہی کسی نے ان کو چھوا۔ آپ کا شبیہ کوئی بھی ہو مقتول ومصلوب ہوا اور بوجہ چغل خوری اور بددیانتی کے اس کو یہ سزا دی گئی