نزدیک بالکل صحیح ہے۔ جیسا کہ خود شیخ صاحب نے تصریح فرمائی ہے۔ اس حدیث سے کئی امور ثابت ہوئے۔
۱… الیٰ حین نزولہ من السماء کا لفظ موجود ہے۔
۲… زریب بن برثما کا اس قدر زمانہ دراز تک بغیر اکل وشرب کے زندہ رہنا۔
۳… عیسیٰ بن مریم کے نزول بنفسہ کی شہادت دینا۔
۴… حضرت عمر کا نضلہ اور تین سوموار کی روایت وصی عیسیٰ کو تسلیم کر کے اپنا سلام وصی علیہ السلام کی طرف بھیجنا۔
۵… حضرت عمر کا بمعہ چار ہزار صحابہ مہاجرین وانصار کے عیسیٰ بن مریم نبی اﷲ کے نزول من السماء کو صحیح خیال کرنا نہ کہ اس کا کوئی مثیل آئے گا۔
۶… چار ہزار سے زائد صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم مہاجرین وانصار کا حضرت عیسیٰ بن مریم کی حیات جسدی پر اجماع قطعی۔
۷… کسی کے دیر تک زندہ رہنے سے یا آسمان پر رہنے سے قطعاً فضیلت نہیں نکلتی اور نہ کسی کی توہین ہوتی ہے۔ ورنہ صحابہ یہ اعتقاد نہ رکھتے۔ عبداﷲ بن عباسؓ (طبقات کبریٰ جلد اوّل ص۲۶، مطبوعہ لندن جرمنی) پر ہے۔ ’’اخبرنا ہشام بن محمد بن السائب عن ابیہ عن ابی صالح عن ابن عباسؓ قال کان بین موسیٰ بن عمران وعیسیٰ بن مریم الف سنۃ وتسعۃ مائۃ سنۃ فلم تکن بینہما فترہ وان عیسیٰ علیہ السلام حین رفع کان ابن اثنین وثلاثین سنۃ وکانت نبوتہ ثلث وثلاثون سنۃ وان اﷲ رفع بجسدہ وانہ حی الان وسیرجع الیٰ الدنیا فیکون فیہا ملکاً ثم یموت کما یموت الناس‘‘ حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ کہا آپ نے کہ درمیان موسیٰ بیٹے عمران اور عیسیٰ ابن مریم کے ایک ہزار نو سو برس گذرے جو کہ زمانہ فترہ کا نہ تھا اور ضرور جب کہ حضرت عیسیٰ بن مریم آسمان پر بمعہ جسم اٹھائے گئے۔ ان کی عمر ۳۲برس کی تھی اور ان کی نبوت کا زمانہ تیس برس کا تھا اور یقینا وہ جلد واپس آنے والے ہیں۔ دنیا میں اور آپ بادشاہ ہوںگے اور پھر آپ کی لوگوں کی طرح وفات ہوگی۔ یہ حضرت عبداﷲ بن عباسؓ وہ ہیں جو کہ آنحضرتﷺ کے چچازاد بھائی ہیں اور حبرامت کا خطاب رکھتے ہیں اور لیاقت علمیہ خصوصاً معارف قرآنیہ میں اوّل نمبر ہیں اور آنحضرتﷺ نے ان کی زیادتی علم کے لئے دعا فرمائی تھی اور مرزاقادیانی کو بھی یہ امر مسلم ہے۔