اجزائے جسمیہ مدینہ طیبہ کی مبارک زمین سے لئے گئے تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہجرت آسمان کی طرف ہوئی۔ اس وجہ سے کہ ان کے اجزائے جسمیہ آسمان سے حضرت جبرائیل امین لائے تھے اور جہاں سے کسی کے اجزائے جسمیہ آتے ہیں۔ اسی جگہ اس کی ہجرت ہوتی ہے اور ہجرت کے بعد واپسی ضرور ہوتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے کہ حضور نبی کریمﷺ ہجرت کے کچھ عرصہ کے بعد مکہ فتح کرنے کے لئے تشریف فرماہوئے اور اہل مکہ آپ پر ایمان لائے۔ اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام بھی فتح اسلام کے لئے ضرور زمین پر تشریف لائیں گے اور اہل کتاب (جو اس وقت موجود ہوںگے) آپ پر ایمان لائیں گے۔
۲… نیز آیت کریمہ سے ہی ثابت ہوتا ہے کہ ہر دو تدبیریں متغائر ہیں۔ کیونکہ عربی قاعدہ کی بنا پر جملہ اسمیہ ہو یا فعلیہ نکرہ کے حکم میں ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جملہ کی صفت نکرہ ہوتی ہے اور مشہور ہے کہ نکرہ کا اعادہ بصورت مغائرت حقیقی کو چاہتا ہے اور یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ ہر دو تدبیر آپس میں منافی اور متغائر ہوں اور وہ اس طرح کہ اﷲتعالیٰ کی تدبیر بصورت رفع جسمانی ہو اور یہود کی بصورت قتل کہ اس صورت میں تغائر ہوگیا اور خداتعالیٰ کی تدبیر کا غلبہ بھی بصورت اتم ثابت ہوگیا۔ حیات مسیح کا ثبوت بھی واضح ہوگیا اور اگر اﷲ کی تدبیر رفع روحانی الی السماء ہو تو یہود کی مراد پوری ہوگی کہ وہ آپ کا قتل ہی چاہتے تھے۔ وہ ہوگیا جس سے لازم آتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی تدبیر مقابلہ کامیاب نہ ہوئی اور یہ صریح باطل ہے۔
’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ویوم القیامۃ یکون علیہم شہیداً‘‘ {اور کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں ہوگا۔ مگر وہ البتہ ضرور ایمان لائے گا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی موت سے پہلے اور وہ (عیسیٰ علیہ السلام) ان پر قیامت کے دن گواہ ہوںگے۔}
اس آیت مبارکہ کی جمہور مفسرین نے تفسیر کی ہے کہ بہ اور موتہ کی ہر دو ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف ہی راجع ہوتی ہیں۔ جیسا کہ سیاق وسباق کا بھی یہی تقاضا ہے۔ بلکہ خود نبی کریم روف رحیمﷺ اور صحابہ کرام اور تابعین عظام اور آئمہ کرامﷺ سے بھی یہی مروی ہے۔ ملاحظہ ہو… حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم؎ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکماً عدلا فیکسرا الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الحرب ویفیض المال حتیٰ لا یقبلہ احد حتیٰ تکون السجدۃ