فیفطرون‘‘ یعنی آنحضرتﷺ نے اس کو اپنے بازو برابر اوپر اٹھایا تاکہ لوگ آپ کو دیکھ کر روزہ افطار کر لیں۔
۲… ’’یرفع الحدیث الیٰ عثمان‘‘ یعنی راوی نے عثمان تک حدیث کو مرفوعاً بیان کیا۔ ’’یرفعہ الیٰ النبیﷺ‘‘ یعنی راوی نے آنحضرتﷺ سے حدیث کو مرفوع بیان کیا۔
۳… ’’یرفع الیہ عمل اللیل قبل عمل النہار ای الیٰ خزائنہ لیحفظ الیٰ یوم الجزا‘‘ یعنی اعمال روز سے پیش تر اعمال رات اﷲتعالیٰ کی طرف پہنچ جاتے ہیں۔ یعنی اس جگہ اور مقر کی طرف جس میں اعمال تاقیامت واسطے دینے جزا کے محفوظ رکھے جاتے ہیں اور اسی طرح وہ رفع جو کہ رفع یدین میں استعمال کیا جاتا ہے اور صحاح ستہ میں موجود ہے۔ ان سب محاوروں میں رفع مستعمل بالیٰ ہے۔ مگر رفع مرتبی کا معنی نہیں ہوسکتا۔ بہرصورت یہ امر ثابت ہوا کہ ایسی ہر جگہ میں جہاں رفع کا صلہ الیٰ آیا ہو۔ وہاں پر یہ خیال کہ وہاں پر رفع مرتبی کے سوا اور معنی نہیں ہوسکتا۔ غلط ہے باقی رہا حوالہ صراح کے سوا اس کے متعلق معروض ہے کہ صراح کا حوالہ پیش کرنا بالکل ناواقفی ہے۔ کیونکہ صراح والے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جہاں کہیں رفع کا صلہ الیٰ آتا ہے۔ وہاں مراد رفع منزلت ہی ہوگا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کبھی رفع کا معنی رفع مرتبی بھی ہوتا ہے۔ جب کہ اس کا صلہ الیٰ واقع ہو۔ یعنی یہ معنی بھی لے سکتے ہیں یا یوں کہے۔ رفع مرتبی کا معنی لفظ رفع ہے۔ اس وقت ہوگا جب کہ اس کا صلہ الیٰ واقع ہو، نہ عکس۔ یعنی یہ نہیں کہ جس جگہ رفع کا صلہ الیٰ ہوگا وہاں رفع منزلت ہی مراد ہوگا۔ جیسے کہا جائے گا کہ پانی کیا چیز ہے۔ جواب میں کہا جائے گا۔ ایک رقیق سیلابی چیز ہے۔ اب اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ جو رقیق اور سیلابی چیز ہوگی وہ پانی ہی ہوگی اور بس۔ محض ایک جنون اور خبط ہے۔ اسی طرح مفردات امام راغب میں بھی لفظ رفع کے متعلق مذکور ہے۔ ’’الرفع یقال تارۃ فی الاجسام الموضوعۃ اذا اعلیتہا من مقرھا وتارۃ فی البنا اذا طولتہ وتارۃ فی الذکر اذا نزھتہ وتارۃ فی المنزلۃ اذا شرفتہا‘‘ یعنی لفظ رفع چار معنوں پر بولا جاتا ہے۔ ایک تو جسموں کو ان کی اپنی جگہ سے اوپر کی طرف اٹھانا اور دوسرا عمارت پر جب کہ اس کو بلند کیا جائے۔ تیسرا ذکر پر جبکہ اس کو شہرت دی جائے۔ چوتھا مرتبہ پر جب کہ اس کو بزرگی دی جائے اور اسی طرح لسان العرب میں سے ہیں۔ جو لفظ رفع کے متعلق ہے۔ ’’فی اسماء اﷲ الرافع ھو الذی یرفع المؤمن بالاسعاد