’’مجدد کا علوم لدنیہ اور آیات سماویہ کے ساتھ آنا ضروری ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۵۴، خزائن ج۳ ص۱۷۸،۱۷۹)
’’گم شدہ دین کو پھر دلوں میں قائم کرتے ہیں۔ یہ کہنا کہ مجددوں پر ایمان لانا کچھ فرض نہیں۔ خداتعالیٰ کے حکم سے انحراف ہے وہ فرماتا ہے۔ ’’ومن کفر بعد ذالک فاولئک ہم الفاسقون‘‘ (شہادت القرآن ص۴۸، خزائن ج۶ ص۳۴۴)
’’مجددوں کو فہم قرآن عطا ہوتا ہے۔‘‘ (ایام الصلح ص۵۵، خزائن ج۱۴ ص۲۸۸)
’’مجدد مجملات کی تفصیل اور کتاب اﷲ کے معارف بیان کرتا ہے۔‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۷۵، خزائن ج۷ ص۲۹۰)
’’مجدد خدا کی تجلیات کا مظہر ہوتا ہے۔‘‘ (سراجدین عیسائی ص۱۵، خزائن ج۱۲ ص۳۴۱)
خلاصہ یہ ہوا کہ کلام اﷲ اور حدیث صحیح کا مفہوم مجددین امت بیان کریں وہ قابل قبول ہے۔ اس کی مخالفت کرنے والا فاسق ہوتا ہے۔
’’حدیث بالقسم میں تاویل امور استثناء ناجائز ہے۔‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۲۶، خزائن ج۷ ص۱۹۲ حاشیہ)
’’جو شخص کسی اجماعی عقیدہ کا انکار کرے تو اس پر خدا اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے اور یہی مقصود ہے اور یہی میرا مدعیٰ ہے۔ مجھے اپنی قوم سے اصول اجماعی میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘ (انجام آتھم ص۱۴۴، خزائن ج۱۱ ص۱۴۴) ’’مؤمن کا کام نہیں کہ تفسیر بالرائے کرے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۳۲۸، خزائن ج۳ ص۲۶۷)
خلاصہ ارشادات مذکورہ
فیصلہ کے لئے قرآن وحدیث اجماع اور صوفیاء کرام، مجددین ملت کے قول وعمل کا اعتبار کیا جائے گا اور یہ کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات قرآن مجید سے ثابت ہو جائے تو ہم جھوٹے اور ہمارے سب دعوے جھوٹے، اور یہ کہ پہلے حکم قرآن سے پھر حدیث، پھر اجماع سے بہ ترتیب اخذ کیا جائے گا اور یہ کہ اہل سنت وجماعت کے عقائد اعمال حجت اور واجب العمل ہیں اور یہ کہ قرآن مجید وحدیث کے کسی معنیٰ کی تفسیر میں قرآن مجید، حدیث، اقوال صحابہ، لغت عرب، صرف نحو، معانی، بیان بدیع کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ کیونکہ قرآن عربی زبان میں ہے جو کہ امور مذکورہ کے بغیر سمجھی نہیں جاسکتی۔