سب پر واجب ہے۔ حضرت امام شافعیؒ نے کہا ہے کہ آنحضرتﷺ نے جو دیا ہے وہ قرآن سے سمجھ کر دیا ہے۔
۳… سو جب تفسیر قرآن کی قرآن وحدیث سے نہ ملے تو پھر صحابہؓ کے اقوال سے تفسیر کرنی چاہئے۔ اس لئے کہ انہوں نے اقوال قرائن اس وقت کے دیکھے بھالے ہیں۔ وقت نزول قرآن وہ حاضر وموجود تھے۔ فہم قرآن میں عمل صالح رکھتے تھے۔
۴… جب تفسیر قرآن پاک کی قرآن وسنت صحیحہ یا قول صحابی میں سے نہ ملے تو اکثر علماء کا یہ قول ہے کہ تابعین کے قول کو معیار کر لیا جائے۔
۵… جب قرآن کی تفسیر کرے تو حتی الامکان اوّل قرآن میں سے کرے۔ پھر سنت مطہرہ سے، پھر قول صحابی سے، پھر اجماع تابعین سے، پھر لغت عرب سے یہ پانچ اصول ہیں اور اپنی طرف سے کوئی بات نہ کہے۔ اگرچہ اچھی ہی کیوں نہ ہو اپنی رائے سے تفسیر کرنے والے کو جہنمی فرمایا ہے۔
۶… حدیث ابن عباسؓ میں آیا ہے کہ جس نے اپنی رائے سے قرآن کریم کی تفسیر کی تو وہ شخص اپنی جگہ آتش دوزخ میں مقرر کرے ۔ اس روایت کو ترمذی نے حسن کہا ہے۔ نسائی اور ابوداؤد نے بھی اس کو روایت کیا ہے۔
مجددین امت وصوفیاء ملت اگر کوئی بیان فرمائیں یا کلام الٰہی یا حدیث اور اقوال صحابہؓ کی تفہیم میں الجھن واقع ہو اور گمراہی کا خطرہ ہو اور یہ حضرات کسی طرح سے حل فرمائیں تو ان کا فیصلہ قبول کیا جائے گا۔ جیسا کہ ’’فردوہ الی الذین یستبطونہ۰ …… فاسئلوا اہل الذکر‘‘ وغیرہ آیات سے ثابت ہوتا ہے، حدیث میں ہے: ’’ان اﷲ یبعث لہذا الامۃ علی راس کل مائہ سنۃ من یجددلہا دینہا… لن تجتمع امتی علی الضلالۃ‘‘ وغیرہ سے ظاہر ہوتا ہے۔
مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’جو لوگ خدا کی طر ف سے مجددیت کی قوت پاتے ہیں۔ وہ نرے استخوان فروش نہیں ہوتے۔ بلکہ واقعی طور پر نائب رسول اﷲﷺ اور روحانی طور پر آنجناب کے خلیفہ ہوتے ہیں۔ خداتعالیٰ انہیں تمام نعمتوں کا وار ث بناتا ہے جو نبیوں اور رسولوں کو دی جاتی ہیں۔‘‘ (فتح اسلام ص۹، خزائن ج۳ ص۷)