پھر نتیجہ یہ نکلا کہ مرزاقادیانی مورخہ ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء بروز منگل قریباً ساڑھے دس بجے دن کے بہ مرض ہیضہ اس طرح کہ: ’’ایک بڑا دست آیا اور نبض بالکل بند ہوگئی۔‘‘ (اخبار بدر مورخہ ۲؍جون ۱۹۰۸ء ص۴) اپنے افتراؤں کی سزا پانے کو حاکم حقیقی کے دربار میں بلائے گئے۔ جس پر کسی زندہ دل شاعر نے لکھا۔
لکھا تھا کاذب مرے گا پیش تر
کذب میں پکا تھا پہلے مر گیا
چاہئے تو یہ تھا کہ امت مرزائیہ آسمانی فیصلہ سے عبرت حاصل کر کے مرزاقادیانی کی نبوت ومسیحیت سے انکار کر دیتی۔ مگر ایسا نہ ہوا اور عذر تراشا کہ یہ دعا نہ تھی بلکہ مباہلہ تھا۔ حالانکہ مرزاقادیانی کی زندگی ہی میں یہ شائع ہوچکا تھا کہ: ’’فیصلہ محض دعا سے چاہا گیا ہے۔ مباہلہ سے نہیں۔‘‘ (بدر مورخہ ۲۲؍اگست ۱۹۰۷ئ)
مولوی محمد علی صاحب اور مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے بھی تسلیم کیا تھا کہ یہ اشتہار محض دعا تھا۔ (ریویو آف ریلجنز قادیان بابت جون،جولائی ۱۹۰۸ئ)
بالآخر لدھیانہ میں آخری فیصلہ کے دعایا مباہلہ ہونے پر فیصلہ کن مناظرہ ہوا۔ ثالث کا فیصلہ مولانا امرتسریؒ کے حق میں ہوا اور مقررہ انعام تین صدر روپیہ مولانا کو ملا۔ جس پر انہیں فاتح قادیان کا لقب دیاگیا۔ روئیداد مناظرہ میں فیصلہ ثالث بنام ’’فاتح قادیان‘‘ شائع ہے۔ جسے پڑھ کر ہر طالب حق فیصلہ کر سکتا ہے۔
مرزائی حضرات مانیں یا نہ مانیں۔ مگر مرزاقادیانی کی موت بہ مرض ہیضہ نے ان کے کذب پر مہر ثبت کر دی۔ ہم نے مسلمانوں کے مسلّمہ عقیدہ ختم نبوت کی توضیح کے لئے اخبار تنظیم اہل حدیث لاہور میں مضمون لکھا۔ ضمناً نزول مسیح کا ذکر بھی آگیا۔ بس پھر کیا تھا۔ قصر مرزائیت میں زلزلہ آگیا۔ مرزائی اخبار پیغام صلح لاہور نے نزول مسیح پر چند اشکال پیش کئے جن کا معقول اور مدلل جواب ہماری طرف سے تنظیم اہل حدیث لاہور میں شائع ہوا۔ جس کا جواب پیغام صلح لاہور نہ دے سکا۔ ’’چناں خفتہ اند کہ گوئی مردہ اند‘‘ اب تو ’’اپالو؍۱۱‘‘ کی کامیاب پرواز نے ابطال مرزائیت پر ایک اور دلیل قائم کر دی ہے۔ جب عامی انسان چاند تک پرواز کر سکتا ہے تو مسیح علیہ السلام کے صعود الیٰ السماء اور نزول من السماء میں کون سا استحالہ ہے؟