بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
پیش لفظ
’’نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ رحمۃ للعالمین وخاتم النبیین وعلیٰ آلہ واصحابہ الطاہرین‘‘
امت محمدیہ میں بڑے بڑے اختلافات رونما ہوئے اور امت مسلمہ کئی گروہوں میں منقسم ہوگئی۔ باوجود اس کے آنحضرتﷺ کے آخری نبی ہونے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قرب قیامت نزول من السماء پر متفق ہی رہی اور اس مسئلہ پر کبھی جھگڑا اور نزاع پیدا نہ ہوا۔ تیرہ سو سال بعد قصبہ قادیان ضلع گورداسپور سے مرزاغلام احمد قادیانی نے یہودیت اور عیسائیت کی تائید میں وفات مسیح کا مسئلہ کھڑا کر کے نزول عیسیٰ علیہ السلام کا صاف طور پر انکار کیا اور خوف مثیل مسیح ہونے کا مدعی بن گئے۔ کبھی غیرتشریعی وتشریعی نبوت کے دعویدار اور گاہے انکار کرتے ہوئے ’’من نسیتم رسول دنیا وردہ ام کتاب‘‘ کہتے رہے۔ چونکہ مرزاقادیانی کا یہ عقیدہ قرآن اور حدیث کے خلاف ہونے کے علاوہ اجماع کا بھی مخالف تھا۔ اس لئے علماء اسلام نے بڑی سختی سے محاسبہ کیا۔ بالخصوص شیخ العرب والعجم میاں نذیر حسینؒ محدث دہلوی، مولانا بشیرؒ، محدث سہسوانی، شمس العلماء مولانا محمد حسین بٹالویؒ، شیخ الاسلام، امام المناظرین، فاتح قادیان مولانا ثناء اﷲ امرتسریؒ اور مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹیؒ قابل ذکر ہیں۔ میرسیالکوٹیؒ نے اثبات حیات مسیح پر ایک جامع اور مدلل کتاب شہادت القرآن دو حصہ مرزاقادیانی کی زندگی میں لکھی جو آج تک لاجواب ہے۔ شیخ الاسلام مولانا ثناء اﷲؒ نے تو ایسی گرفت کی کہ مرزاقادیانی چلاّ اٹھے اور ایک دعا ’’مولوی ثناء اﷲ کے ساتھ آخری فیصلہ‘‘ شائع کی کہ: ’’اے خدا! اگر مولوی ثناء اﷲ سچے ہیں اور میں جھوٹا ہوں تو مجھے ان کی زندگی میں ہلاک کر دے اور اگر میں سچا ہوں اور وہ جھوٹے ہیں تو انہیں میری زندگی میں ہلاک کر دے۔ ہلاکت بھی انسانی ہاتھوں سے نہیں بلکہ طاعون ہیضہ وغیرہ امراض مہلکہ سے۔‘‘
(۱۵؍اپریل ۱۹۰۷ئ، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸)
اس کے بعد انہوں نے لکھا کہ: ’’مجھے الہام ہوا ہے۔ ’’اجیب دعوۃ الداع‘‘ یعنی دعابارگاہ الٰہی میں قبول ہوگئی ہے۔‘‘ (اخبار بدر مورخہ ۲۵؍اپریل ۱۹۰۷ئ)