لئے شرائط طے پائیں اور یہ طے پایا کہ مورخہ ۱۱؍نومبر ۱۹۸۱ء کو بروز بدھ کو میرے ذاتی مکان پر چند حضرات کی موجودگی میں یہ مناظرہ ہوگا اور قادیانی حضرات نے ہمارے مبلغ اور دیگر حضرات کی موجودگی میں تحریر لکھ کر دی ہے۔
تحریر کردہ اقرارنامہ کے مطابق آج مورخہ ۱۱؍نومبر ۱۹۸۱ء کو میرے مکان پر مولانا جمال اﷲ صاحب (مسلمانوں کی طرف سے) اور مرزامختار احمد قادیانی مربی کنری (قادیانیوں کی طرف سے) تشریف لائے۔ لیکن مرزامختار احمد نے کہا میں ابھی پندرہ منٹ تک اپنی کتب اور ساتھیوں کو لے کر حاضر ہوتا ہوں۔ لیکن صبح ۸؍بجے سے ساڑھے گیارہ بجے تک انتظار کرنے کے بعد قادیانیوں کی طرف سے کوئی شخص نہیں آیا۔ ان کو کئی پیغام بھجوائے گئے۔ لیکن قادیانیوں نے میرے مکان پر رکھا ہوا مناظرہ کرنے سے انکار کیا۔ حضرت مولانا جمال اﷲ صاحب اور ان کے ساتھیوں نے مختار احمد قادیانی اور اس کے ساتھیوں کا ساڑھے تین گھنٹے تک انتظار کیا۔ لیکن قادیانیوں نے سابقہ روایات کے مطابق اور سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے مناظرہ سے راہ فرار اختیار کی اور مناظرہ کے لئے میرے گھر نہیں پہنچے۔ ٹھیک ساڑھے گیارہ بجے ان کی طرف سے ایک تحریری ثبوت موصول ہوا۔ جس میں تحریر ہے کہ ہماری جماعت کسی قسم کی بات کرنے کو تیار نہیں ہے اور اگر آئندہ حالات نے اجازت دی تو آپ سے بات کریں گے۔
میں نے یہ تحریر لکھ دی ہے کہ وقت ضرورت کام آئے اور سند رہے۔ میرے ساتھ معززین شہریوں کے دستخط ہیں جو متواتر ساڑھے تین گھنٹہ انتظار کرتے رہے۔
دستخط کنندگان کے نام
جلیل الرحمن اختر، میاں عبدالواحد ناظم اعلیٰ مجلس تحفظ ختم نبوت کنری، عبدالرؤف عفی عنہ خطیب مسجد اقصیٰ، مولانا محمود، منظور احمد الحسینی، حبیب اﷲ بخاری مسجد کنری، غلام حسین خطیب مکہ مسجد کنری، ڈاکٹر سبطین لکھنوی کنونیئر سندھ اہل حدیث مطالبات کمیٹی، ایم جمیل ناز کنری، ودیگر شرکائ۔
ض … ژ … ژ … ض