کی حوصلہ افزائی نہ کرے ، بلکہ ان کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔
(رحمۃ اللہ الواسعہ ۳؍۱۳۰)
اختلاف کی صورت میں
اگر کسی حدیث کے بارے میں محدثین کا اختلاف ہو، بعض نے اس کو موضوع کہا ہو اور بعض اس کے موضوع نہ ہونے کے قائل ہوں، یا ایک عالم نے ایک حدیث کو صحیح کہا دوسرے عالم نے اسی حدیث کو موضوع کہا ، تو اس وقت بہترتو یہ ہے کہ اس کے بیان کرنے سے احتراز کیا جائے ، کیوں کہ کوئی صحیح حدیث بیان کرنے سے رہ جائے گی تو اس کا گناہ نہیں ہوگا ، البتہ موضوع کو غیر موضوع سمجھ کر بیان کر دیا تو منشائے نبوی کے خلاف ہوگا ، نیز علم حدیث کا قاعدہ ہے کہ ایک راوی کے متعلق علماء کی دو رائیں ہوں ، کچھ علماء کہہ رہے ہیں کہ وہ کذاب ہے، اور دوسرے بعض اس کو کذاب نہیں مان رہے ہیں تو اس وقت جرح کرنے والوں کی رائے مقدم ہوگی ، اسی کو علم حدیث میں یوں بیان کیا جاتا ہے الجرح مقدم علی التعدیل اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو سچا کہنے والوں کی دلیل صرف یہ ہے کہ انہوں نے اس کو جھوٹ بولتے دیکھا نہیں ہے ، اور جرح کرنے والے اس کے کسی جھوٹ پر یا کسی اور عیب پر مطلع ہوگئے ہیں جو پہلی قسم کے لوگوں کو معلوم نہیں ہے ، پس جرح کرنے والوں کے قول کی بنیاد علم ہے ، اور دوسرے گروہ کے رائے کی بنیاد صرف یہ ہے کہ ہم نے دیکھا نہیں ، اس لئے جرح تعدیل پر مقدم ہوتی ہے (بعض صورتوں میں اس قاعدہ میں فرق بھی آجاتا ہے)لہذا احتیاط اسی میں ہے کہ اختلاف کے موقع پر مختلف فیہ حدیث سے بچا جائے ،