والترھیب‘‘ میں ضعیف اور موضوع روایتوں کو جمع کیا، البانی کے اس عمل نے احادیث کو بڑا نقصان پہنچایا۔
قارئین کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ یہ ہمارے علماء ، محدثین اور ائمۂ امت کا طرز نہیں ہے، بلکہ نئی پیداوار کی نئی سوچ ہے ،جس کو قبولیت کا درجہ نہیں دیا جاسکتا ، علماء اور محدثین کے نزدیک ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے، اعمال کے فضائل میں تو ضعیف احادیث بڑی وسعت سے قبول کی گئی ہیں، کئی محدثین نے اعمال کے فضائل پر کتابیں لکھی ہیں اور کثرت سے ضعیف احادیث کو اپنی کتابوں میں داخل کیا ہے، اور صحیح اور حسن درجہ کی حدیث کی عدم موجودگی میں ضعیف حدیث سے احکام میں بھی کام لیا گیا ہے، الغرض ضعیف حدیث موضوع کے برابر نہیںہے ۔
پس جو علمائے متقدمین اور اکابر محدثین اور جماعت اہل سنت سے وابستہ رہنا چاہتا ہے اس کو چا ہئے کہ اس حسین غلاف سے دھوکے میں نہ آئے ، بلکہ اس دور میں جب کہ متقدمین کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، جس کو عربیت کی بھی پوری واقفیت نہ ہو وہ بھی اکابر پر اعتراض کرنے سے نہیں رکتا، ایسے دور میں اہل سنت والجماعت کے اکابر کا دامن مضبوطی سے پکڑ لینا چاہئے ، ورنہ کتنے لوگوں کو نفس و شیطان نے اچک لیا ہے ، کہیں ایسا نہ کہ ہم بھی اپنی جہالت سے کسی باطل کو حق سمجھ کر اس کو اختیار کرلیں ۔
ضعیف حدیث بھی رحمت ہے
ضعیف حدیث معمول بہ بن سکتی ہے، اور اس پر عمل کرکے فضائل حاصل کئے جاسکتے