سے زائد صحابہؓ کو کثرت حدیث سے روکا، اور یہ حضرت عمرؓ اور ان کے علاوہ دیگر صحابہ کا رجحان تھا، (حافظ ذہبیؒ فرماتے ہیں)میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ جب حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں لوگوں کو زیادہ حدیث بیان کرنے سے روکا جاتا تھا جب کہ سچائی اور عدالت سے ہر کوئی مزین تھا، اور سند کا نام و نشان نہیں تھا کیوں کہ وہ تو براہ راست حضور ﷺ سے بیان کرتے تھے ، بلکہ وہ تو ایک ایسا پاکیزہ اور خوشگوار ماحول تھا جس میں جھوٹ کی ملاوٹ نہیں تھی، پس اس زمانے میں جب کہ اسناد کا ایک طویل سلسلہ ہے اوہام و اغلام کا غلبہ ہے عجیب و غریب اور منکر روایات بیان کرنے کے متعلق تیرا کیا خیال ہے، یہ طرز کیسے مناسب ہوسکتا ہے، پس مناسب تو یہ ہے کہ ہم لوگوں کو اس سے روکے، کیوں کہ اگر وہ غریب اور ضعیف روایت بیان کرنے پر ہی اکتفا کرتے تب بھی کچھ بات تھی، لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ برا حال ہورہا ہے کہ اللہ کی قسم اصول و فروع اور ملاحم و زہد کے باب میں ہر طرح کی من گھڑت ، باطل اور محال روایات کر نے میں بے باک نظر آتے ہیں، ہم اللہ ہی سے عافیت کے طلبگار ہیں۔
قبول روایت میں سامعین کی ذمہ داری
وعظ یا تقریر سننے والے حضرات کے لئے بھی شریعت نے کچھ ہدایات دی ہیں، ان میں سے ایک اہم حکم یہ ہے کہ کسی مقرر سے حدیث سن کر اس کو قبول کرنے میں جلدی نہ کرے، اگر وہ مشہور روایت ہے تو ٹھیک ہے اور اگر نئی سننے میں آگئی ہے تو اس کی تحقیق کرلے، اگر واعظ باصلاحیت اور محتاط عالم ہے تو یہی بات قبول روایت کے لئے کافی ہے ، اور اگرواعظ غیر معروف ہے، یا احادیث کے معاملے میں محتاط نہیں ہے تو اس سے سن کربغیر