جھوٹی اور موضوع حدیث کو روایت کرنے والا بھی ان لوگوں کے ساتھ وعید میں شامل ہوگا جو جھوٹ گھڑنے والے ہیں۔ ( تحذیر الخواص۷۱)
اچھے مقصد سے موضوع روایت بیان کرنا
بعض جاہل صوفیاء کا یہ خیال تھا کہ کسی کو نیک کام پر آمادہ کرنے کے لئے اور گناہ سے روکنے کے لئے حدیث کو گھڑنا یا موضوع حدیث کا بیان کرنا جائز ہے، لیکن اہل سنت والجماعت اس بات پر متفق ہے کہ یہ خیال غلط ہے، اور جس طرح اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے یا اپنا ذاتی مفاد حاصل کرنے کے لئے موضوع روایت کو بیان کرنا یا کسی روایت کو گھڑنا گناہ ہے اسی طرح نیک نیتی سے کرنا بھی سخت گناہ ہے، بعض لوگوں نے قرآن کی ہر سورت کے فضائل میں احادیث بیان کیں، جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ کہاں سے روایت کرتے ہوں تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے لوگوں کو دیکھا کہ قرآن سے ہٹتے جارہے ہیں اس لئے ثواب کی امید میں ایسا کام کیا ہے، بعض لوگوں نے بعض نفل نمازوں کے متعلق احادیث وضع کی ہیں، لیکن علماء اور محدثین نے ان بعض جاہلوں کے خیال کو ذرہ برابر اہمیت نہیں دی، بلکہ اس کو حرام کہاہے، علامہ عبد الحییٔ لکھنوی ؒ تحریر فرماتے ہیں :
قد ثبت من ھذہ الروایات ان الوضع علی النبی ﷺ و نسبۃ ما لم یقلہ الیہ حرام مطلقا۔(الآثار المرفوعۃ ۸۹)
’’ ان روایات سے یہ ثابت ہوا کہ رسول اللہ ا پر جھوٹ باندھنا اور آپ ا کی طرف ایسی بات منسوب کرنا جو آپ انے نہ کہی ہو مطلقا حرام ہے ۔
تمام محدثین اور علماء نے مطلقا اور ہرحال میں اس کوحرام کہا ہے، کوئی بھی صورت