حالت میں لائق عمل نہیں ہے ۔
٭ضعیف حدیث تعدد طرق سے حسن لغیرہ کا درجہ پالیتی ہے جبکہ موضوع کثرت طرق کے باوجود موضوع ہی رہے گی ۔
٭نیز کوئی حدیث ضعیف متلقی بالقبول ہو تو اس میں قوت آجاتی ہے، اور یہ قوت تعدد طرق سے حاصل ہونے والی قوت سے فائق ہوتی ہے، تعدد طرق سے ضعیف روایت حسن لغیرہ کے درجہ کو پہنچ جاتی ہے، اور تلقی بالقبول سے جو قوت حاصل ہوتی ہے وہ صحیح لذاتہ سے حاصل ہونے والی قوت سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ (اصول حدیث غور و فکر کے چند اہم گوشے)
علامہ سیوطی ؒ تدریب الراوی میں لکھتے ہیں :
قال بعضھم: یحکم للحدیث بالصحۃ اذا تلقاہ الناس بالقبول وان لم یکن لہ اسناد صحیح۔ تدریب الراوی۶۶
پس ان وجوہ سے ضعیف اور موضوع حدیث میں بڑا فرق ہوجاتا ہے ، اور محدثین اور علماء نے اس فرق کا لحاظ کیا ہے ، اور محدثین نے دونوں کو الگ الگ شمار کیا ہے ، آج تک علماء نے ضعیف احادیث کو موضوعات کے ساتھ جمع نہیں کیا تھا ، جب علماء نے موضوعات کو اکٹھا کرنے کے لئے قلم اٹھایا تو اس میں مستقل طور پر ضعیف احادیث کا اندراج نہیں کیا،ضمناً ضعیف حدیث کا آجانا الگ بات ہے۔
غیر مقلدین نے اس فاصلے کو ختم کردیا
غیر مقلدین کے فسادات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ علماء امت نے ضعیف اور