صفات و افعال الہی
٭اذا اراد اللہ ان ینزل الی السماء الدنیا نزل عن عرشہ بذاتہ۔
ترجمہ : جب اللہ تعالی آسمان دنیا پر آنا چاہتے ہیں تو عرش سے اتر کر بذات خود آتے ہیں۔
تحقیق : ملا علی قاری ؒ نے لکھا ہے کہ یہ حدیث نہیں ہے ۔(الاسرار ۱۱۲)
پہلے آسمان پر آنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی خاص رحمت بندوں سے قریب ہوتی ہے، اور اللہ تعالی بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ، یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالی کسی اور جگہ تھے ، پھر وہاںسے پہلے آسمان پر آئے ۔
فائدہ : بعض لوگ اللہ تعالی کے ہر جگہ حاضر و ناظر ہونے سے اس کا ظاہری مطلب مراد لیتے ہیں ، عاجز ایک مدت تک یہی سمجھتا رہا کہ اللہ تعالی ہر جگہ موجود ہیں ، اور جس طرح ہوا انسان کو محیط ہے اسی طرح اللہ تعالی بھی اپنی ذات سے بندوں کو محیط ہیںنعوذ باللہ ، اور جس طرح انسان کی حرکت سے ہوا متحرک ہوتی ہیں اللہ تعالی کی بھی یہی شان ہوگی نعوذ باللہ ، لیکن جب حقیقت کا علم ہوا تب اپنی پرانی غلطی کا احساس ہوا، در حقیقت حاضر و ناظر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی ہر چیز کو جاننے والے ہیں ، ہر چیز پر قدرت رکھتے ہیں ، یعنی اپنے علم و قدرت سے تمام مخلوقات کو محیط ہیں ، یہ مطلب نہیں کہ حقیقت میں اللہ تعالی کی ذات ہمارے پاس موجود ہیں، عقائد کی کتابوں میں یہ وضاحت موجود ہے کہ اللہ تعالی کی ذات زمان و مکان سے منزہ ہے۔