حضرات تیری ایک ایک حدیث کو چھان کر باہر نکال دیں گے ۔
الآثار المرفوعہ کے مقدمہ میں صاحب تحقیق و تعلیق نے علماء کی اس خدمت جلیلہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
وقد واجہ العلماء ھذہ الاحادیث بالموقف الذی یحقق لھذہ الشریعۃ نقائھا وسلامتھا من التزاید والنقصان واستطاعوا ان یمیزوا الخبیث من الطیب والصحیح من الضعیف و الموضوع حتی غدی الحدیث الموضوع المکذوب معروفا لا یختلط بالصحیح۔
’’علماء کرام نے ان احادیث کی طرف متوجہ ہوکر اس طرح ان کی خدمت انجام دی کہ شریعت مطہرہ کسی طرح کی کمی زیادتی کے بغیر قائم و دائم ہے ، اور خدمت حدیث میں وہ طرز اختیار کیا کہ خبیث اور طیب ، صحیح اور ضعیف و موضوع کے درمیان امتیاز پر قدرت حاصل ہوگئی ، چنانچہ موضوع حدیث کھل کر اس طرح سامنے آگئی کہ صحیح حدیث کے ساتھ مخلوط نہیں ہو سکتی‘‘۔ (الآثار المرفوعۃ ۱۱)
سندکا اہتمام
موضوعات کی روک تھام کے لئے بنیادی چیز جس کو محدثین نے اپنایا سند ہے، جب لوگوں نے حدیث میں جھوٹ بولنا شروع کیا ، اور موضوعات کو رواج دینے کی کو ششیں ہوئیں، تو علمائے حدیث نے سند کی طرف توجہ فرمائی ، جب کوئی حدیث بیان کرتا تو اس سے