آج یہ فرق مراتب کیوں؟
آج ہم جو یہ دیکھ رہے ہیں کہ قرآن کو علم و عمل میںمقدم سمجھا جا تا ہے (تقدس و تبرک میں تو اس کا درجہ واقعتا بلند ترین ہے، کیوں کہ اس کے الفاظ بھی منزل من اللہ ہیں )حدیث کو اس سے کم ، پھر حدیث میںبھی قوت و ضعف کے مختلف مراتب ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور اقدس اکے بعد امت تک جو وحی کا علم پہنچا وہ براہ راست حضور اقدس ا کی زبان مبارک سے نہیں سنا گیا ہے بلکہ راویوں کے واسطے سے پہنچا ، اور راویوں میں جھوٹے بھی ہوتے ہیں سچے بھی ہوتے ہیں ، کبھی پہنچانے والا ایک ہی آدمی ہوتا ہے اور کبھی جم غفیر کے توسط سے وہ علم امت تک پہنچتا ہے، اس لئے اب ان راویوں میں جتنے اسباب ایسے ہوں گے جن سے بات کی سچائی کا یقین ہوتا ہے اتنا ہی وہ علم قابل اعتماد ہوگا ، اور جتنی ان صفات کی کمی ہوگی اتنا ہی اس علم سے اعتماد کم ہوتا جائے گا ۔
اس ضابطے کی تفصیل و تفریع
چنانچہ قرآن کو ہم تک پہنچا نے والے اتنے سارے لوگ ہیں کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا عادۃ محال ہے ، لہذا پورے یقین سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ اللہ کا وہی قرآن ہے جو ہمارے نبی ﷺ پر نازل ہوا تھا ، اگر کسی نے اس کی ایک آیت کا بھی انکار کر دیا یا اس سے بھی کم کا انکار کیا تو وہ اسلام کی سرحد سے نکل جا ئے گا ، اور یہی حال احادیث کے کچھ حصہ کا بھی ہے ، یعنی وہ احادیث اتنی بڑی تعداد کے واسطہ سے ہم تک پہنچی ہیں کہ ان کا جھوٹ