یقوم بمعرفۃ ما فیہ من الضعف او العلۃ القادحۃ الا الواحد بعد الواحد من النقاد۔ (البانی شذوذہ واخطائہ ۱۲۵)
’’سندوں کا ذکر کرلینا ذمہ داری سے سبکدوش نہیں کرتا، اس لئے کہ سندوں کا حال یہ ہے کہ علم حدیث سے ناواقف لوگوں کی بات چھوڑئیے بہت سے حدیث کا شغل رکھنے والے حضرات پر مخفی رہ جاتا ہے، اور ایک دو ماہرین فن کے علاوہ سند کے ضعف اور اس کی علت قادحہ کو جاننے کی کوشش بھی کوئی نہیں کرتا‘‘۔
بے احتیاطی بھی باعث گناہ ہے
اگر موضوع حدیث کو جانتے ہوئے بیان کیا تو حرام ہے جیسا کہ ابھی معلوم ہوگیا ، لیکن اگر کوئی موضوع حدیث لاعلمی میں بیان ہوگئی تو اگر لا علمی کا سبب غفلت و لا پرواہی نہیں ہے بلکہ بیان کرنے والے نے موضوع سے بچنے کی کوشش کی تھی لیکن موضوع ہونے کا علم نہ ہوسکا تویہ غلطی معاف ہے جیسا کہ شریعت کے اصول اور مختلف احکام سے اس کی وضاحت ہوتی ہے ، لیکن اگرحدیث بیان کرنے میں سرے سے اس کی کوشش ہی نہیں کی کہ صحیح کو جان کر بیان کرے اور موضوع سے بچے ، بلکہ کسی بھی کتاب یا رسالہ میں کوئی حدیث دیکھی بیان کردی ، یا کسی بھی خطیب اورمقرر سے سنی اس کو آگے چلانا شروع کردیا ، نہ یہ دیکھا کہ کتاب کیسی ہے ؟ معتبر ہے یا نہیں ؟اور اس حدیث کے متعلق محدثین کی کیا رائے ہے ؟ نہ یہ غور کیا کہ حدیث بیان کرنے والا واعظ کیسا ہے ؟کیا وہ باصلاحیت اور احادیث کے معاملے میں احتیاط کرنے والا ہے یا کوئی عامی اور احادیث میں لاپرواہی کرنے والا ہے ؟ تو وہ گنہگار ہوگا