کہ آپ سے کوئی سوال کیا گیا جس کا جواب آپ کے پاس نہیں تھا اس پر کہا) کہ اے ابو محمد آپ کے جیسے شخص کے لئے یہ بات بہت بری ہے کہ آپ سے دین کا کوئی مسئلہ پوچھا جائے تو آپ کے پاس اس کے متعلق کوئی علم نہ ہو ، حضرت قاسم ؒ نے پوچھا ایسا کیوں؟ حضرت یحیی بن سعید ؒ نے کہا : اس لئے کہ آپ دو اماموں (ابوبکر ؓ و عمریا عمرؓ اور ابن عمرؓ) کے بیٹے ہیں، حضرت قاسم ؒ نے فرمایا کہ اللہ نے جس کو عقل سے نوازا ہے اس کے نزدیک اس سے بھی زیادہ بری بات یہ ہے کہ میں کوئی بات بغیر علم کے کہوں، یا غیر معتبر راوی سے روایت لوں، اس پر حضرت یحییٰ خاموش ہوگئے اور کوئی جواب نہیں دیا۔(مقدمۂ مسلم)
ہماری کمزوری اور راہ عمل
دور حاضر میں سامعین کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اس واعظ سے زیادہ دلچسپی لیتے ہیں جو حیرت میں ڈالنے والی ، سنسنی پیدا کرنے والی باتیں سنائے، جس کی باتوں میں مبالغہ ہو، جتنی مبالغہ آمیز باتیں ہوتی ہیں اتنی ہی عوام میں قبولیت حاصل ہوتی ہے، اگر کوئی صحیح روایات اور مشہور احادیث بیان کرتا ہے تو سامعین کو اس وعظ میں کچھ لطف ہی نہیں آتا، عوام کی نفسیات کو جاننے والے واعظین ان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاکر واہیات اور مناکیر و اباطیل سے اپنے بیانات کو مزین کرتے ہیں ۔
لیکن سامعین کا یہ طرز کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے ، بلکہ ضرر رسا ہے ، اس طرز عمل سے نام نہاد واعظین کو حوصلہ ملتا ہے ، اور صحیح احادیث سنانے والے علماء کو دین کی صحیح تصویرعوام کے سامنے رکھنے میں ناکامی ہوتی ہے ۔