بدن پر تو کہیں زخم نہیں ہے،بلکہ اپنی ہی صحت کی فکر میں لگا رہے گا، اور اگر کسی نے اس کے بدن پر زخم دیکھ کر اپنے بدن پر مرہم لگانے سے انکار کیا تو اس سے بڑا ’’عقلمند‘‘ کون ہوگا؟
اور اگرناقد و مصلح حقیقت میں ہماری تحریک کا مخالف ہے تب بھی حق بات کو قبول کرنے میں کونسا مانع پیش آرہا ہے ، حق بات تو ہر مومن کا سرمایہ ہے دینے والا کون ہے یہ دیکھ کر خود کا سرمایہ رد نہیں کردینا چاہئے، یہ حدیث پیش نظر رہے
الکلمۃ الحکمۃ ضالۃ المؤمن فحیث وجدھا فہو احق بھا۔
(ترمذی)
’’حکمت کی بات مومن کا گمشدہ سرمایہ ہے ، پس وہ اس کو جہاں بھی پالے تووہ اس کا زیادہ مستحق ہے ‘‘
معلوم ہوا حق کی بات ہر مسلمان کا اپنا سرمایہ ہے، جہاں سے بھی ملے چاہے موافق سے ملے چاہے مخالف سے حاصل ہو اسے قبول کرنا چاہئے ، کیا آپ کا یہی مخالف اگر آپ کا کوئی گم شدہ جانور واپس کرنے آئے تو کیا آپ رد کردیںگے، ہرگز نہیں ، بلکہ اس کے احسان مند ہوںگے پس اسی طرح اگر کوئی ہماری اصلاح کی بات کرے تو ہم مصلح سے یہ کہے کہ جزاک اللہ یہ چیز میں کب سے تلاش کر رہا تھا،کیوں کہ یہ حکمت کی بات میری تھی جو گم ہوگئی تھی ، آپ کا شکر ہے جو آپ نے مجھ تک پہنچادی۔
کسی حدیث کو موضوع کہنے میں احتیاط
جس طرح کسی حدیث موضوع کو صحیح کہنا جائز نہیں اسی طرح صحیح حدیث کو موضو ع