یرجوااللہ والیوم الآخر وذکر اللہ کثیرا} (الاحزاب ۲۱)
’’تم لوگوں کے لئے یعنی ایسے شخص کے لئے جو اللہ سے اور روز آخرت سے ڈرتا ہو اور کثرت سے ذکر الہی کرتاہورسول اللہ ﷺ کا ایک عمدہ نمونہ موجود تھا‘‘
اور ایک جگہ ارشاد باری ہے
{وما آتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا}(الحشر ۷)
’’اور پیغمبر جو تم کو عطا کرے اسے لے لو اور جس چیز سے روکے اس سے رک جایا کرو‘‘
ان آیتوں میں امت سے مطالبہ ہے کہ رسول اللہا کے قول و عمل کی پیروی کرے ، اب اگر احادیث رسول ا(جو کہ اقوال و افعال رسول اکا دوسرا نام ہے ) بعد والوں کو نہیں پہنچیں،یا جھوٹ کی ایسی آمیزش ہوگئی کہ کھرے اور کھوٹے کو الگ کرنا مشکل ہوگیا اور صحیح احادیث کو الگ کرکے ان پر عمل کرنا ناممکن ہوگیا تو مذکورہ آیتوں پر امت عمل پیرا کیسے ہوگی؟ اور قرآن کی یہ آیتیں بے معنی ہوجائیں گی ، یا تکلیف ما لا یطاق لازم آئے گی ،پس معلوم ہوا کہ اللہ کی طرف سے اتباع رسول اور اسوۂ رسول اکرم کو اپنانے کا حکم حفاظت حدیث کی ذمہ داری کو متضمن ہے۔
اللہ سے سچا وعدہ کس کا ہوسکتا ہے؟
چنانچہ اللہ تعالی نے احادیث مبارکہ کی حفاظت فرمائی ،اور اس کی حفاظت کے اسباب مہیا کئے ، مثلا