ہے کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔
( المغنی ص۷۵۷ ،کشف الخفاء ۲؍۴۶۲، الاسرار۳۷۱)
ان مثالوں سے ہرگز کسی کی تنقیص مقصود نہیں ہے، اللہ تعالی علماء کرام اور مشائخ عظام کی ادنی بے ادبی سے بچائے ، مقصود اس بات کا احساس دلانا ہے کہ غلطی سے انسان پاک نہیں ہے ، جن احادیث کو محدثین نے صاف طور پر موضوع یا بے اصل کہہ دیا ہے اس کو بھی بیانوں اور کتابوں میں دیکھا گیا ، معلوم ہوا کہ محض کسی کا بیان کردینا یا لکھ دینا حدیث کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں ہے، لہذا اس کو دلیل بنانا اور اسی بنیاد پر موضوع حدیث بیان کرتے رہنا درست نہیں ہے، بلکہ یہ تونہ صرف یہ کہ عقل کے خلاف ہے بلکہ مشاہدہ کے بھی خلاف ہے ۔
اگر ہمارے پاس حدیث کے غیر موضوع ہونے کی کوئی معتبر دلیل ہو اور ان معتبر دلیل کی بنیاد پر مصلح و ناقد کی بات کو رد کردے تو یہ ہمارا حق ہے ۔
مصلح و ناقد کو مخالف سمجھنانادانی ہے
اور کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ اصلاح کرنے والے کے متعلق یہ خیال کیاجاتا ہے کہ یہ ہمارا یا ہماری تحریک کا مخالف ہے، اور مصلح کی بات چاہے کتنی ہی بے غبار اور صحیح اور سہل دلائل کی بنیاد پر قائم ہو مگر اس کو مخالف کہہ کر اس کی بات کے رد کرنے کا جواز پیدا کیا جاتا ہے ، جیسے ہی کسی کی زبان سے نکلا کہ تم ہمارے مخالف ہو بس قائل کی فتح ہوگئی، اور سمجھاجاتا ہے کہ ناقد کی تمام باتوں اور تمام دلائل کا جواب اسی ایک جملے میں ہوگیا، اور تنقید و اصلاح کرنے والا