وجب الاحتیاط فی الروایۃ لئلا یروی کذبا۔
’’حدیث بیان کرنے میں احتیاط ضروری ہے تاکہ جھوٹ کے طور پر حدیث بیان نہ ہوجائے‘‘ ۔
حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ رقمطراز ہیں:
فمن خشی من الاکثار الوقوع فی الخطأ لا یُؤمَن علیہ الاثم اذا تعمد الاکثار۔ (فتح الملھم ۳۳۱)
’’جس شخص کو کثرت روایت سے اس بات کا اندیشہ ہو کہ اس سے غلطی ہوجائے گی اگر ایسا شخص روایتیں زیادہ بیان کرنے کا ارادہ کرے گا تو وہ گناہ سے بے خوف نہیں ہوسکتا یعنی وہ گنہگارہو سکتا ہے‘‘۔
حاصل یہ کہ حدیث بیان کرنے میں تحقیق ضروری ہے ، شریعت کے کسی حکم کا بیان کرنا یا کسی عمل پر فضائل یا وعیدیں بتانا بہت بڑی ذمہ داری کی بات ہے ، بغیر تحقیق کے بیان کرنا شریعت کے سامنے جرأت کرنا ہے ، ایسی جرأت کو کون ذی فہم اچھا سمجھ سکتا ہے ؟
اگر اتفاق سے روایت صحیح تھی تب بھی گناہ ہوگا
ملا علی قاری ؒ حافظ عراقی ؒ سے نقل کرکے فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے صحیح اور موضوع کی پہچان کے بغیر کوئی حدیث بیان کی تو وہ گنہگار ہوگا اگر چہ اتفاق سے اس کی بیان کردہ حدیث صحیح بھی ہو ، ان کے الفاظ یہ ہیں:
ثم انھم (یعنی القصاص) ینقلون حدیث رسول اللہ ﷺ من غیر