تنبیہ
ہم لوگ علم سے دوری کی وجہ سے جن بہت سے حقائق سے ناآشنا ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اگر کسی بڑے نے کوئی بات کہہ دی توہم یہ سمجھ لیتے ہیںکہ جو کچھ کہا اور جیسا کہا بالکل صحیح ہے اس میں غلطی کا امکان ہو ہی نہیں سکتا یہ ہماری جہالت ہے جس نے حقیقت پر پردہ ڈال دیا ہے ، غلطی کا امکان ہر حال میں باقی رہتا ہے ، اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ان کی ہر بات غلط ہے ، یا ہر بات میں غلطی کا احتمال پیدا ہوکر ناقابل اعتما د ہے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آدمی کسی بڑے شخص کی کسی غلطی پر متنبہ کرے اور اس کے پاس اس کے دلائل و شواہد بھی ہوں پھر اس کی ہر بات اور ہر دلیل کے جواب میں بس ایک ہی بات کی رٹ ہو کہ’’وہ بڑے ہیں، ان کی بیان کردہ حدیث کیسے موضوع ہوسکتی ہے‘‘، اور یہ کہہ کر اس کی بات کو رد کردینا عقل و دانش کے خلاف ہے ، حق کسی ایک کے ساتھ چمٹا ہوا نہیں رہتا ، ہر ایک حق پر بھی ہو سکتا ہے اور ہر کسی سے غلطی بھی ہو سکتی ہے ، صحیح اور غیر صحیح کا فیصلہ علم حدیث کے صحیح اصول کریںگے، کسی بڑے کے بیان کرنے سے کوئی حدیث علم حدیث کے محکم و مسلم اصول سے بے نیاز نہیں ہوجاتی اور اس پر صحت مہر نہیں لگ جاتی ، دنیا میں انبیاء کے علاوہ کوئی معصوم نہیں ہوتا ہے ، تاریخ بھی شاہد ہے کہ بڑے بڑے علماء سے غلطیاں ہوئی ہیں ، بلکہ چارمقبول مذاہب کے ائمہ سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں اور کتنے مسائل میں ان جبال علم حضرات کارجوع ثابت ہے ، اور آگے بڑھئے تو بعض صحابہ سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں ، اور غلطی ہونا کسی کی شان کو گھٹاتا نہیں ، انسان کی عظمت و رفعت کا مدار اس کا تقوی ، عاجزی اور شان عبدیت ہے ، پس یہ چیز جتنی زیادہ ہوگی اتنی ہی زیادہ حقیقی بلندی نصیب ہوگی، چاہے